ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب
وصف
مجھے ہر مہینہ ایام بیض (چاند کی تیرہ چودہ پندرہ تاریخ) کے روزے رکھنے کی عا دت ہے, لیکن اس ماہ میں نے روزے نہیں رکھے اور جب میں نے روزے رکھنے چاہے تومجھے یہ کہا گیا کہ یہ جائز نہیں بلکہ یہ بدعت ہے میں نے ماہ کے پہلے سوموارکا روزہ رکھا اورپھرانیس شعبان بروز بدھ کا بھی روزہ رکھا ہے اور اللہ کے حکم سے کل جمعرات کا بھی روزہ رکھنا ہے تو اس طرح میرے تین روزے ہوجائیں گے لہذا اسکا کیا حکم ہے؟ اورشعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھنے کا کیا حکم ہے؟
- 1
ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب
PDF 98 KB 2019-05-02
- 2
ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب
DOC 938 KB 2019-05-02
کامل بیان
ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب
( الترغيب في صيام الأيام البيض وشهر شعبان )
( أردو - اردو - urdu)
محمد صالح المنجد
2009 - 1430
بسم الله الرحمن الرحيم
ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب
مجھے ہر مہینہ ایام بیض (چاند کی تیرہ چودہ پندرہ تاریخ) کے روزے رکھنے کی عا دت ہے, لیکن اس ماہ میں نے روزے نہیں رکھے اور جب میں نے روزے رکھنے چاہے تومجھے یہ کہا گیا کہ یہ جائز نہیں بلکہ یہ بدعت ہے میں نے ماہ کے پہلے سوموارکا روزہ رکھا اورپھرانیس شعبان بروزبدھ کا بھی روزہ رکھا ہے اور اللہ کے حکم سے کل جمعرات کا بھی روزہ رکھنا ہے تو اس طرح میرے تین روزے ہوجائیں گے لہذا اسکا کیا حکم ہے؟اورشعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھنے کا حکم کیا ہے؟
الحمد للہ:
اول:
اللہ سبحانہ وتعالي نے بغير علم كے كوئي بات كہني حرام قرار دي ہے اور اسے شرك اور كبيرہ گناہوں كےساتھ ملا كر ذكر كيا ہے .
فرمان باري تعالي ہے: ( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ ) الأعراف/33 .
"كہہ ديجيے كہ ميرے رب نے صرف حرام كيا ہے ان تمام فحش باتوں كو جو علانيہ ہيں اور جو پوشيدہ ہيں اور ہرگناہ كي بات كو اور ناحق كسي پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالي كےساتھ كسی كو شريك ٹھراؤ جس كي اللہ تعالي نے كوئي سند نہيں اتاري اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالي كے ذمہ ايسي بات لگادو جس كو تم نہيں جانتے"( الاعراف: 33 )
اور سوال ميں جو يہ ذكر ہوا ہے كہ بعض لوگوں نےمذكورہ صورت ميں شعبان كےروزے ركھنے كوبدعت قرار ديا ہے يہ بھي اللہ تعالي پر بغير علم كے بات كہى گئي ہے .
دوم :
ہر ماہ ميں تين روزے ركھنا مستحب ہيں، اور افضل يہ ہے كہ يہ روزے ايام بيض جو كہ تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كے ہيں ركھےجائيں .
ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: ميرے دلي دوست نے مجھے تين چيزوں كي وصيت فرمائي كہ موت تك ميں انہيں ترك نہ كروں، ہر ماہ كےتين روزے اور چاشت كي نماز اور سونے سے قبل وتر ادا كرنے.
صحيح بخاري حديث نمبر ( 1124 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 721 )
اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ نے مجھے فرمايا:
" تيرے ليے ہر ماہ كےتين روزے ركھنا كافي ہے، كيونكہ تجھے ہر نيكي كا دس گنا اجرملےگا تو اس طرح يہ سارے سال كےروزے ہونگے"
صحيح بخاري حديث نمبر ( 1874 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1159 )
اور ابوذر رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
" اگر تم مہينہ ميں كوئي روزہ ركھنا چاہتےہو تو تيرہ چودہ پندرہ كا روزہ ركھو"
سنن ترمذي حديث نمبر ( 761 ) سنن نسائي حديث نمبر ( 2424 ) امام ترمذي نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ارواء الغليل ( 947 ) ميں اس كي موفقت كي ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
حديث ميں ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ كو ہر ماہ ميں تين روزے ركھنے كي وصيت فرمائي، لھذا يہ روزے كب ركھےجائيں؟ اور كيا يہ مسلسل ركھنےہونگے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:
يہ تين روزے مسلسل ركھنے بھي جائز ہيں اور عليحدہ عليحدہ بھى، اور يہ بھي جائز ہے كہ مہينہ كي ابتدا ميں ركھ ليے جائيں يا درميان ميں اور مہينہ كے آخر ميں بھي ركھے جاسكتے ہيں، اس ميں وسعت ہے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس كي تعيين نہيں فرمائي .
عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے پوچھا گيا كہ كيا رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم ہر ماہ تين ايام كےروزے ركھتےتھے؟
توعائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كہنےلگيں جي ہاں، ان سے كہا گيا كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم مہينہ كےكس حصہ ميں روزے ركھتےتھے؟ وہ كہنےلگيں انہيں اس كي پرواہ نہيں تھي كہ مہينہ كےكس حصہ ميں روزے ركھيں. صحيح مسلم حديث نمبر ( 1160 )
ليكن تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كےروزے ركھنا افضل ہيں كيونكہ يہ ايام بيض ہيں ( يعني ان ايام ميں چاند مكمل ہوتا ہے ) .
ديكھيں: مجموع فتاوي الشيخ ابن عثيمين ( 20 / سوال نمبر 376 )
جس نےبھي آپ كواس مہينہ ( شعبان ) ميں روزے ركھنےسے منع كيا ہے ہوسكتا ہے اس نےاس ليے كہا ہو كہ اسے يہ علم ہوا ہو كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے نصف شعبان ہونے پر روزے ركھنے سے منع فرمايا ہے .
اس ممانعت كےمتعلق سوال نمبر ( 49884 ) كےجواب ميں تفصيل سے بيان ہوچكا ہے كہ يہ ممانعت اس شخص كےمتعلق ہے جو نصف شعبان كےبعد روزے ركھنےكي ابتدا كرتا ہے اور روزہ ركھنا اس كي عادت نہيں .
ليكن جو شخص شعبان كي ابتدا ميں روزے ركھنے شروع كرے اور پھر نصف شعبان كےبعد بھي روزے ركھتا رہے يا پھر روزہ ركھنے كي عادت ہو تو نصف شعبان كےبعد اس كےروزہ ركھنے ميں كوئي ممانعت نہيں، مثلا اگر كسي شخص كي ہر ماہ تين روزے ركھنےكي عادت ہے يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھنے كي عادت ہو .
تواس بنا پر شعبان ميں آپ كاتين روزے ركھنے ميں كوئي حرج نہيں، حتي كہ اگر كچھ روزے شعبان كےنصف كےبعد بھي ہوں توصحيح ہے.
چہارم :
شعبان كےمہينہ ميں كثرت سے روزے ركھنےميں كوئي حرج نہيں بلكہ يہ سنت ہے، نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم اس ماہ ميں كثرت سے روزے ركھا كرتے تھے.
عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم روزے ركھتے تو ہم كہنا شروع كرديتے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اب روزے نہيں چھوڑيں گے، اور روزے نہ ركھتے حتي كہ ہم يہ كہنےلگتيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم روزے نہيں ركھيں گے، ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم كو رمضان المبارك كےعلاوہ كسي اور ماہ كے مكمل روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا، اور ميں نےشعبان كےعلاوہ كسي اور ماہ ميں انہيں كثرت سے روزے ركھتےہوئے نہيں ديكھا.
صحيح بخاري حديث نمبر ( 1868 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1156 )
ابو سلمہ بيان كرتےہيں كہ عائشہ رضي اللہ تعالي نے انہيں بيان كيا كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم شعبان سے زيادہ كسى اور ماہ ميں روزے نہيں ركھتےتھے نبى كريم صلي اللہ پورے شعبان كےہى روزے ركھتےاور كہا كرتےتھے جتني تم طاقت ركھتےہو اتنا كام كرو، اس ليے كہ اللہ تعالي اس وقت تك اجرو ثواب ختم نہيں كرتا جب تك تم اكتا نہ جاؤ، اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے نزدیک سب سے پسنديده وہ نماز تھى جس پر ہميشگى كى جائے اگرچہ وہ كم ہى ہو، اور جب نبى صلى اللہ عليہ وسلم نماز پڑھتےتواس پر ہميشگى كرتے تھے.
صحيح بخاري حديث نمبر ( 1869 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 782 )
آپ سوال نمبر ( 49884 ) كےجواب كا بھي مطالعہ كريں جس كى طرف ابھى كچھ دير قبل اشارہ بھى كيا گيا تھا.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب