مدينہ جانے والوں كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كا حكم ؟
وصف
بے شک روئے زمین پر اللہ کے کچہ ایسے فرشتے مقرر ہیں جو نبی صلى اللہ علیہ وسلم تک امّتیوں کی درودو سلام پہنچاتے رہتے ہیں مگراس کے باوجود بھی اکثر لوگ حجاج کرام اور زائرین مدینہ کے ہاتھوں خط وکتابت یا زبانی طورپر نبی صلى اللہ علیہ وسلم تک درود و سلام بھجواتے رہتے ہیں جو سراسر بدعت ہے کیونکہ سلف صالحین اور ائمہ عظام کے هاں اسکا کوئی تصور نہیں تھا.
-
1
مدينہ جانے والوں كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كا حكم ؟
PDF 96.1 KB 2019-05-02
-
2
مدينہ جانے والوں كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كا حكم ؟
DOC 910.5 KB 2019-05-02
کامل بیان
مدينہ جانے والوں كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كا حكم ؟
﴿ ما حكم إرسال السلام للنبي صلى الله عليه وسلم مع الذاهبين للمدينة ؟﴾
]Urdu [ أردو- الأردية -
محمد صالح المنجد
مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مد نی
2009 - 1430
﴿ ما حكم إرسال السلام للنبي صلى الله عليه وسلم مع الذاهبين للمدينة ؟ ﴾
((باللغة الأردية))
محمد صالح المنجد
مراجعة : شفيق الرحمن ضياء الله المدني
2009 - 1430
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجاج کے ساتھ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجنے کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ :
يہ غير مشروع فعل ہے، ايسا فعل قرون مفضلہ ميں سے نہيں ، اور نہ ہى عقلمند مسلمانوں كا فعل رہا ہے؛ كيونكہ كسى بھى جگہ سے ہرایک كے ليے نبى اكرم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كرنا ممكن ہے، اور اللہ تعالى نے اس سلام كو اپنے فرشتوں كے ذريعہ جن كو اس عظيم كام كى ذمہ دارى سونپى ہے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم تک پہنچانے كى ذمہ دارى لى ہے.
تو اس بنا پر جو شخص بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر كسى بھى جگہ سے سلام بھيجتا ہےتو يہ سلام يقنيا پہنچ جاتا ہے، تو پھر مدينہ الرسول كى زيارت كرنے والے كو ايسى تكليف كيوں دى جائے كہ وہ نبى عليہ السلام پر سلام پڑھ دے، اور اس كا بھى علم نہيں كہ وہ سلام بھیجے یا نہ بھیجے، اور يہ بھى علم نہيں كہ اسے ياد رہے يا بھول جائے ؟
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے كچھ ايسے فرشتے ہيں جو زمين ميں گھومتے رہتے ہيں وہ ميرى امت كا سلام مجھ تك پہنچاتے ہيں "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1282 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1664 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنے گھروں كو قبريں مت بناؤ اور ميرى قبر كو ميلہ گاہ نہ بناؤ، اور مجھ پر درود بھيجا كرو كيونكہ تم جہاں بھى ہو تمہارا درود مجھ تك پہنچ جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2042 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7226 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ عبد الرحمن بن ناصر البراك ـ جو كہ امام محمد بن سعود اسلامى يونيورسٹى كے پروفيسر ہيں ـ حفظہ اللہ كا كہنا ہے:
مدينہ كا سفر كرنے والے كے ہاتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنے كى كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى، اور نہ ہى يہ سلف صالحين صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم كى عادت ميں سے تھا، اور نہ ہى تابعين كى عادت تھى اور اسى طرح اہل علم بھى سلام نہيں بھيجا كرتے تھے، اور نہ ہى ان ميں سے كسى ايك سے بھى يہ منقول ہے ، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كى امت كا سلام اور درود ان تك پہنچايا جاتا ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث ميں ہے:
" تم اپنے گھروں كو قبريں مت بناؤ اور ميرى قبر كو ميلہ گاہ نہ بناؤ، اور مجھ پر درود بھيجا كرو كيونكہ تم جہاں بھى ہو تمہارا درود مجھ تك پہنچ جاتا ہے"سنن ابو داود حديث نمبر ( 2042 ).
اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" کیونکہ تم جہاں كہیں بھى ہو تمہارا سلام مجھ تك پہنچ جاتا ہے "- مسند ابو يعلى حديث نمبر ( 469 ).
تو اس بنا پر: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام بھيجنا بدعت ہے، بلكہ ميت كو بھى سلام بھيجنا جائز نہيں، کیونکہ ميت كو بھى وہی شخص سلام كرے گا جو قبر كى زيارت كرے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اہل بقيع كى زيارت كرتے ،ان پرسلام پڑھتے اور ان كے ليے دعا ئیں كرتے ، اوراپنے صحابہ كرام كو قبروں كى زيارت كے وقت( دعا)پڑھنے كے طریقہ کی تعلیم دیتے تھے جیسا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
( السَّلامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلاحِقُونَ ، أَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمْ الْعَافِيَةَ )
"اے مومن اور مسلمان قبروں والو! تم پر سلامتى ہو، يقينا ان شاء اللہ ہم بھى تم سے ملنے والے ہيں، ميں اللہ تعالى سے تمہارے اور اپنے ليے عافيت كا طلبگار ہوں " صحيح مسلم حديث نمبر ( 975 ).
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھ سے فرمايا: تم يہ كہو:
(السَّلامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ ، وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلاحِقُونَ )
" اے مسلمان اور مومن گھروں ( قبروں ) والو! تم پر سلامتى ہو، اور اللہ تعالى ہم ميں سے پہلے چلے جانے والوں اور بعد ميں جانے والوں پر رحم كرے او رہم بھى ان شاء اللہ تمہارے ساتھ آ كر ملنے والے ہيں " صحيح مسلم حديث نمبر ( 974 ). اور (صحیح یہ ہے کہ )غائب شخص كى جانب سے زندہ كو سلام پہنچايا جاتا ہے.
مقصود يہ ہےکہ : اللہ تعالى نے اس امت پر آسانى فرمائى ہے كہ وہ اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود اور سلام بھيجيں، اور زمين کے كسى بھى جگہ ميں كثرت سے درود و سلام پڑھيں، کیونکہ حديث ميں وارد ہے كہ اللہ تعالى نے آپ کی قبرکے ساتھ کچھ ایسے فرشتے مقررفرمادئے ہیں جوآپ تک امت کی جانب سے بھیجنے والوں کے درود وسلام کوپہنچاتے رھتے ہیں. اللہ تعالى ہمارے نبى پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. واللہ اعلم.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كے ساتھ ہم يہ بھى كہتے ہيں كہ:
"اگر آپ نے دنيا كے آخرى كونے ميں بيٹھ كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام پڑھا تو وہ بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تک پہنچ جائيگا؛ كيونكہ اللہ تعالى نے كچھ فرشتے مقرر كر ركھے ہيں جو زمين ميں گھوم پھر رہے ہيں جب كوئى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام پڑھتا ہے تو وہ يہ سلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف نقل كر ديتے ہيں.
چنانچہ اگر ہم يہ كہيں كہ: " اللهم صلِّ وسلِّم على رسول الله " تو ہمارا سلام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك نقل كر ديا جائيگا، اور آپ نماز ميں يہ كہتے ہيں:
(السلام عليك أيها النبى و رحمة اللہ و بركاتة )
"اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم! آپ پر سلامتى ہو، اور اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى بركت نازل ہو".
تو يہ سلام نبى كريم صلى اللہ عليہ تك نقل ہو جاتا ہے...
ميں نےبعض لوگوں كو مدينہ ميں يہ كہتے ہوئے سنا ہے:
ميرے والد نے مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام بھیجنے كى وصيت كرتے ہوئےكہا تھا:
"ميرى جانب سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كہنا".
تویہ غلط ہے،کیونکہ رسول اکرم صلى اللہ عليہ وسلم زندہ نہيں كہ ان تك زندہ شخص كى سلام نقل كى جائے، پھر جب آپ كے والد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كرتے ہیں تو انکايہ سلام آپ سے زيادہ با اعتماد اور زيادہ قدرت ركھنے والے- فرشتے - کے ذریعے نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم تک پہنچا دیا جاتا ہے. تو پھر اس كى كوئى ضرورت نہيں-
اور ہم كہتے ہيں:
آپ اپنى جگہ ميں ہى، زمين ميں جہاں بھى ہوں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام پڑھيں تو وہ بہت جلد اور احسن اور زيادہ با اعتماد طريقے سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك پہنچ جائيگا.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 23 / 416 - 417 ).
واللہ اعلم . الاسلام سوال وجواب