علمی زمرے

معلومات المواد باللغة العربية

فتاوے

عناصر کی تعداد: 508

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    برائے مہربانى آپ درج ذيل مسئلہ ميں شريعت اسلاميہ كے مطابق راہنمائى فرمائيں: اگر دوسرى بيوى كاغذات ميں جعل سازى كر كے اپنے خاوند كے خلاف مہر اور اخراجات كا مسئلہ كھڑا كرے .. اور اس كى غيرموجودگى ميں بداخلاقى كرتى ہو اور وہ اپنى والدہ كے ساتھ رہ رہى ہے، ميں نے صلح كى بہت كوشش كى ہے ليكن اس كا كوئى فائدہ نہ ہوا، اب اگر ميں نے اسے طلاق دى تو يہ تيسرى طلاق ہو گى، ليكن اسے طلاق كى كوئى پرواہ نہيں وہ مال كے علاوہ كچھ نہيں چاہتى. اس نے عدالت ميں طلاق كا مقدمہ كر ركھا ہے تو كيا يہ خلع شمار ہو گا، اور اگر ايسا نہيں تو بچى كى پرورش كا ذمہ دار كون ہے ؟ ميں اس كى غطياں اور كوتاہياں بيان نہيں كرنا چاہتا ليكن كچھ حقائق بيان ضرور كرونگا، كوئى اہتمام نہيں كرتى اور اچھے طريقہ سے نہيں رہتى جس كى وجہ سے بچى كى تربيت پر اثر پڑے گا، اس كى تعليم بھى كوئى نہيں ہے، اور مستقبل ميں اس كا يہ طريقہ بچى پر اثرانداز ہو گا. اس سے بھى اہم چيز يہ ہے كہ اس نے مجھے ٹيلى فون پر بتايا كہ وہ بچى كى شخصيت كو برا بنا كر ركھ دے گى، مجھے يہ بتائيں كہ بچى كى پرورش كرنا كس پر واجب ہوتى ہے تا كہ ہم بچى كو غلط ماحول سے بچا سكيں ؟ حالانكہ وہ ملازمت بھى كرتى اور مال كماتى ہے، ليكن زندگى ميں يہ مال ہى ہر كچھ نہيں ہوتا، زندگى كا معنى تو اچھى عادات و تربيت اور اخلاقيات و دين كا قوى ہونے كا نام ہے، ان اشياء كو مدنظر ركھتے ہوئے بچى كى والدہ ميں يہ چيزيں قوى اور مضبوط نہيں. اور جب وہ كام پر جاتى ہے تو بچى كو نانى سنبھالتى ہے اور اس كى ديكھ بھال كرتى ہے، اور نانى بھى جاہل ہے پڑھى لكھى نہيں، ميں نے اچانك ايك بار اس سے بچى كے متعلق بہت برے الفاظ سنے تو وہ اس كى تربيت كس طرح اچھى كر سكتى ہے ؟ اسلامى تعليمات كے مطابق كيا خاندان ميں والد كے علاوہ كوئى اور شخص چھوٹے بچے كى ديكھ بھال اور تربيت كر سكتا ہے ؟ اور وہ شخص كون ہے جس كى عادات اور دين اعلى ہو، اور وہ شخص كون ہو گا جس كى معاشرے ميں زيادہ ذمہ دارياں ہيں ؟ ميرے خيال ميں تو ميرى بچى كو ايك نيك و صالح انسان وہى بنا سكتى ہے جو عورت خود بھى اچھے اخلاق اور عادات كى مالك ہو گى اور دين كا شغف ركھتى ہو.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    میں ایک مسلمان عورت ہوں اوراپنے سارے افعال میں اللہ تعالی کا خوف رکھتی ہوں ، الحمد للہ میں نے ایک مثالی شخص سے شادی کی جوکہ اپنے سب معاملات میں اپنی مثال آپ ہے ، معاملات میں بھی بہت اچھا ہے ، ہمارے تعلقات بہت ہی اچھے جارہے تھے ، آپس میں محبت ، ایک دوسرے کا احترام ، ایک دوسرے کی موافقت ، ایک دوسرے کے خاندان سے محبت ۔ لیکن ہوائيں بھی ہروقت کشتیوں کے موافق نہیں چلتیں ، ان دنوں ہم پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ میں کنواری نہیں تھی اورمیرا کنوارا پن ضائع ہوچکا تھا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ میں بری ہوں اس لیے کہ خاوند سے قبل کبھی بھی کسی نے مجھے چھوا تک بھی نہیں ؟

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    میں تیس برس کی عمرکا جوان ہوں اورشادی سے قبل دین کا التزام نہیں کرتا تھا ، الحمد للہ اب اللہ تعالی نے مجھ پرھدایت کا انعام کیا ہے میں دین کا التزام کرنے لگا ہوں ، میں نے ایک ایسی لڑکی سے شادی کی جوکہ اسلامک سٹڈی کر چکی تھی ۔ میں بہت ہی خوش تھا کہ وہ اللہ تعالی اطاعت اوردینی التزام میں میری معاون ثابت ہوگي ، لیکن اس کے ساتھ رہنے سے مجھے پتہ چلا کہ وہ توایک عام سی لڑکی ہے اوراس میں دینی التزام تونام کا بھی نہیں ، اوراس میں بہت ساری منفی چيزیں بھی پائي جاتی ہیں ۔ مثلا: اس میں کسی بھی چھوٹی یا بڑی برائي کوروکنے کی طاقت نہيں ، بلکہ وہ خود بعض برائياں کرتی ہے مثلا ٹیلی ويژن دیکھنا ، غیبت اورچغلی کرنی ، اورعبادت میں کمی بھی پائي جاتی ہے ۔ اوراس میں بعض مثبت چيزیں بھی ہيں مثلا ، وہ بہت اچھی اورصابرہ ہے ، اورخاوند اورگھرکے سب واجبات کو اچھے طریقے سے نبھاتی ہے ، لیکن جوچيز غم میں ڈالتی ہے وہ یہ کہ میں کوئي ایسا شخص چاہتا ہوں جو دینی التزام کرنے میں میرا تعاون کرے ، اوریہ کسی دین والے کے ذریعہ ممکن تھا لیکن میں نے تودین والی کوبھی پایا ہے کہ وہ بھی اس کی محتاج ہے کہ اس کی معاونت کی جائے ، میری یہی مشکل ہے میں آپ سے گزارش کرتا ہے کہ آپ مجھے اس کا کوئي حل بتائيں آپ کا شکریہ ۔

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں نے سوال نمبر ( 2803 ) كے جواب ميں پڑھا جس ميں آپ نے سوال كرنے والى كو اپنى شادى كے اعلان كى نصيحت كى ہے كيونكہ يہى سنت ہے جيسا كہ ميں نے ايك دوسرے سوال ميں پڑھا ہے كہ كئى ايك اسباب كى بنا پر والدين نے اپنے بيٹے يا بيٹى كى شادى كى رغبت كو ٹھكرا ديا ہے تو اس سلسلہ ميں آپ اس بہن كو كيا نصيحت كرتے ہيں: ايك عورت جس كا خاوند ہندو ہے اس كو طلاق ہو چكى اور پھر اس عورت نے اسلام قبول كر ليا كيونكہ وہ حق كو پہچان گئى اور اسے صراط مستقيم كى راہنمائى حاصل ہو گئى ہے الحمد للہ. اس نے اپنے خاندان والوں سے كسى معروف سبب كى بنا اپنا اسلام مخفى ركھا، ليكن اس كے دونوں بچے ابھى تك ہندو ہى ہيں، اس ليے كہ اس كا سابقہ خاوند اسلام دشمن ہونے كى بنا پر بيوى كو قتل كرنا بہتر سمجھتا ہے كہ اس كے دونوں بچے اسلام قبول كر ليں، وہ شخص دين اسلام اور اللہ سبحانہ و تعالى پر كئى ايك موقع پر سب و شتم بھى كر چكا ہے. يہ بہن اب ايك دين والے مسلمان شخص كو پسند كرتى ہے جو اخلاق عاليہ كا مالك ہے، ليكن مشكل يہ درپيش ہے كہ اس شخص كے والدين اس شادى كے خلاف ہيں، اس كى والدہ كا اعتقاد ہے كہ جو نئے مسلمان ہوتے ہيں وہ اچھے نہيں ہوتے بلكہ وہ كہتى ہے " يہ ممكن ہى نہيں ہو سكتا كہ وہ كسى دن ہم ميں سے ہوں " جب وہ شادى كا فيصلہ كرے تو كيا دونوں كے ليے اس شادى كو ان اسباب كى بنا پر خفيہ ركھنا جائز ہے ؟ جو شخص اس عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں بچوں كو اپنے ساتھ ركھنے پر متفق ہيں، اور وہ انہيں اسلام كى دعوت دے كر انہيں مسلمان بنائيں گے، وہ شخص كہتا ہے كہ ايك ہى گھر ميں دو دين پر عمل نہيں ہو سكتا. ان دو مشكلات كى موجودگى ميں وہ دونوں كس طرح زندگى بسر كر سكتے ہيں، يعنى خاوند كى جانب سے گھر والوں كى مشكل، اور بيوى كى جانب سے سابقہ خاوند جو اپنے بچوں كو اسلام ميں داخل نہيں ہونے ديتا، اور ميرى يہ سہيلى بچوں كى پرورش كا حق چھنوانا نہيں چاہتى كيونكہ ان كا باپ برے اخلاق كا مالك ہے اور ان پر ظلم و زيادتى كريگا. برائے مہربانى اس بہن كو جلد از جلد كوئى ايسى نصيحت كريں جو اس كو مشكلات سے نكالنے كا باعث بن سكے، كيونكہ وہ رات كو بھى سو نہيں سكتى، و صلى اللہ علي نبى محمد عليہ السلام.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں تعليم يافتہ شخص ہوں اور ميرى بيوى بچے بھى ہيں ليكن بيوى كے ساتھ ميرے ہميشہ ہى اختلافات رہتے ہيں، ميں نے بارہا اس كے ساتھ مشكل كو حل كرنے كى كوشش كى ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، نہ تو وہ طلاق لينے پر راضى ہے اور نہ ہى مجھے جنسى طور پر خوش كرتى ہے، اور ہمارے معاشرے ميں دوسرى شادى كرنے كى اجازت نہيں، يا پھر لوگ شادى شدہ شخص سے اپنى بيٹى نہيں بياہتے، ميں خوفزدہ ہوں كہ اگر يہى حالت رہى تو ممنوع اور حرام كا ارتكاب كر بيٹھوں گا برائے مہربانى ميرى راہنمائى فرمائيں، اور آپ سے نصيحت كى اميد ركھتا ہوں، اور ميرى اس مشكل كا كوئى بتائيں اور اس كى بہتر حل كيا ہو سكتا ہے ؟

  • اردو

    PDF

    ايك شادى شدہ نوجوان آدمى جو جنون جيسے مرض كا شكار ہونے كى بنا پر ہر وقت پريشان سا رہتا ہے، اور كمزور حافظہ كى بنا پر وسوسے كا بہت زيادہ شكار ہے, وہ اپنے اس خاندان والوں كے ساتھ ہى رہائش پذير ہے جو نجوميوں اور بدفالي پر ايمان ركھتا ہے. اسى بنا پر وہ اسے كہتے ہيں كہ اسے جو بيارى اور تكليف ہو رہى ہے اس كا سبب اس كى بيوى ہے اور وہ اسے منحوس قرار ديتے ہيں، كيونكہ اس كا ستارہ منحوس ہے، اور اگر وہ اسے نہيں چھوڑتا تو بيمارى بھى نہيں جائيگى. اس نوجوان نے بيمارى سے شفايابى كا لالچ كرتے ہوئے بيوى كو تين طلاق كےالفاظ ادا كر ديے، ان الفاظ كى ادائيگى كرتے وقت اس كے پاس كوئى شخص نہ تھا حتى كہ بيوى بھى نہ تھى، اور بيوى كے گھر سے چلے جانے اور واپس نہ آنے كے خوف كى بنا پر اس نے اس كے بارہ ميں كسى كو بتايا بھى نہيں، وہ كچھ عرصہ اس كے پاس رہى حتى كہ اس كے بچے كو جنم ديا. اس نوجوان نے اس كے متعلق دريافت كيا تو اسے كہا گيا كہ جب وہ اسے بتائےگا تو اس كے بعد اس پر عدت ہوگى پھر وہ اس سے رجوع كر سكتا ہے، اور اسے اب چار برس بيت چكے ہيں اس نوجوان نے كسى اور سے بھى دريافت كيا: تو اس شخص نے اسے بتايا كہ نہ تو اسے طلاق ہوئى ہے اور نہ ہى وہ عدت گزارے گى، ليكن تمہيں اللہ سے توبہ كرنى چاہيے. برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ اس طلاق پر كيا مرتب ہوتا ہے، كيونكہ بيوى اب تك ميرے پاس گھر ميں ہے اور ميرى حالت بھى ويسى ہى ہے ؟ اور اس طرح كے اعمال كے صحيح ہونے اور ان سے فائدہ ہونے كا اعتقاد ركھنے والے كو آپ كيا نصيحت كرتے ہيں ؟ اور اسى طرح آپ بغير علم كے فتوى دينے والے لوگوں كو كيا نصيحت كريں گے.

  • اردو

    DOC

    مُفتی : محمد صالح

    جب میں نماز پڑھتا اور کسی بھی اچھے کام کی نیت کرتا ہوں تو مجھے شیطانی سوچیں گھیر لیتی ہیں اور جب میں نماز میں دھیان رکھنے اور کلمات کے معانی پر غور کرنے کی کوشش کرتا ہوں میری عقل اور ذہن میں شیطانی سوچیں داخل ہو جاتی اور ہر چیز کے متعلق برے اعتراضات پیدا ہوتے ہیں اور میں اس وجہ سے غصہ محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور توبہ قبول کرنے والا نہیں لیکن میں اپنی ان سوچوں کے سبب محسوس کرتا ہوں کہ اس سے برا کوئی نہیں جو کہ میرے ذہن میں اللہ تعالی کے متعلق برے برے خیالات آتے ہیں میں نماز کے بعد اللہ تعالی سے دعائے مغفرت کرتا ہوں لیکن تنگی محسوس کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان بری سوچوں کو روک لوں لیکن اس کی طاقت نہیں رکھتا میں نماز کا سرور اور لطف نہیں پا سکتا اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں منحوس ہوں آپ سے میری گذارش ہے کہ مجھے نصیحت فرمائیں ۔

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميرا سوال طلاق ميں وسوسہ كے متعلق ہے: ميرا ايك لڑكى سے عقد نكاح ہوا ہے اور ميں اس سے بہت محبت كرتا ہوں عقد نكاح كے ايك روز بعد شطيان نے نماز ميں مجھے طلاق كا وسوسہ ڈالا كام پر ہوؤں يا گھر ميں يا بيت الخلا ميں يا سويا ہوا ہوں يہى وسوسہ رہتا ہے. ايك دن ميں العفاسى چينل ديكھ رہا تھا جس ميں ازدواجى زندگى كے بارہ ميں ايك ويڈيو كلپ تھا جس ميں خاوند اور بيوى كے مابين پيدا ہونے والى مشكلات بيان ہوئى ہيں ايك شخص كہنے لگا: ميں جانے والا ہوں تو ميں نے اسے سنا اور آواز كے ساتھ دھرايا تجھے طلاق، ليكن مجھے كوئى علم نہيں اور نہ ہى ادراك تھا، اللہ ميرى نيت كو جانتا ہے ميں نے بغير شعور كے يہ الفاظ بولے. اور ميرى نيت ميں ميرى بيوى كے متعلق كوئى چيز بھى نہ تھى بلكہ ميں تو اسے محبت كرتا اور چاہتا ہوں اس سلسلہ ميں شرعى حكم كيا ہے جس حالت ميں يہ الفاظ بولے ہيں آيا طلاق واقع ہوئى ہے يا نہيں اور اس وسوسہ كا علاج كيا ہے ؟

  • اردو

    PDF

    ايك عورت طہارت و پاكيزگى كرنے ميں وسوسوں كا شكار ہے، اور وضوء كرنے كے بعد بھى پيشاب اور پاخانہ روكنا محسوس كرتى رہتى ہے. بلكہ ايك بار تو اس نے محسوس كيا كہ كوئى اسے قرآن اور اللہ كو برا كہنے كا كہہ رہا ہے، تو وہ اس وجہ سے رو پڑى، اس عورت كے ليے وسوسے سے خلاصى اور علاج كا كيا طريقہ ہے ؟

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں روزہ كے متعلق وسوسہ كى شديد بيمارى ميں مبتلا ہوں جس كا بشرى عقل تصور بھى نہيں كر سكتى، رمضان المبارك ميں جب ميں روزہ كى حالت ميں ہوتى ہوں تو چھوٹے سے چھوٹے سبب كى وجہ سے كئى قسم كے وسوسے پيدا ہوتے ہيں، فجر سے قبل اور بعد ميں يہى ہوتا ہے كہ ميرا روزہ صحيح نہيں، اور بعض اوقات تو مغرب سے قبل بھى پيدا ہوتا ہے. جس كى بنا پر ميں نے اس دن كا روزہ بھى ركھا ہوتا ہے ليكن پھر بھى نيت كرتى ہوں اس دن كا روزہ دوبارہ ركھوں گى، اور جب رمضان المبارك ختم ہو جاتا ہے تو دل ميں كہتى ہوں كہ صرف رہنے والے روزے ہى ركھونگى كيونكہ باقى ايام كے روزے تو ركھے تھے. ليكن مجھے دوبارہ وسوسے گھير ليتے ہيں كہ ميں نے تو روزے دوبارہ ركھنے كى نيت كى تھى، اب مجھے يہ پتہ نہيں چلتا كہ آيا ميں يہ روزے دوبارہ ركھوں يا كہ اللہ تعالى سے وہى روزے قبول كرنے كى دعاء كروں ؟ اس پر مستزاد يہ كہ رجب، شعبان اور رمضان ميں مجھے طہر اور پاكى ہونے كے بعد پھر زرد قسم كا مادہ آيا تھا، اور پھر اس كے بعد كسى بھى ماہ نہيں آيا يعنى ان تين ماہ كے بعد ماہوارى سے پاك ہونے كى نشانى كے بعد كوئى زرد قسم كا مادہ يا گدلا پانى نہيں آيا، جو ان وسوسوں كا بہت زيادہ ممد و معاون ثابت ہوا ہے، اور رمضان كے بعد ان وسوسوں كى بنا پر ميرے بہت سے ايام ضائع ہوئے كبھى تو ميں نيت ہى نہ كر سكى، اور كبھى دو نيتيں ہو گئيں، يہ چيز ميرے حلق ميں اٹكى ہوئى ہے، اور رمضان المبارك پھر قريب آ گيا ہے، ليكن ميں پچھلے رمضان كى قضاء بھى نہيں كر سكى، ميں اس حالت ميں پہنچ چكى ہو جو اللہ كے علاوہ كسى كو علم نہيں، برائے مہربانى مجھے اس مسئلہ ميں معلومات فراہم كريں.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    وسوسے كے شكار شخص نے كئى ايك قسميں اٹھائيں كہ وہ عمل بار بار نہيں كريگا، ليكن قسم توڑ دى، اس پر بہت سى قسميں اور عہد جمع ہو چكے ہيں، جس كى تعداد كا علم اللہ ہى كو ہے، اور اسے وسوسہ كى بيمارى بھى ہے، سابقہ قسموں كا كفارہ كيسے ادا كرے ؟

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    پہلے تو ميں اپنے بارہ ميں كچھ معلومات دينا پسند كرونگا، ميرى عمر انتيس برس ہے اور ميں انجينئر ہوں اور بہت تنظيم پسند ہوں صفائى اور خاموشى كو پسند كرتا ہوں اپنے تصرفات ميں توازن ركھنے والا اور عقل و دانش ركھتا ہوں اور ميں وضاحت و صراحت اور حقيقى محبت كو پسند كرتا ہوں، اسى طرح مصلحت كى دوستى كو ناپسند كرتا ہوں. جب كسى شخص كے بارہ ميں علم ہو كہ وہ ميرى تحقير كرنے كى كوشش كر رہا ہے يا پھر وہ ميرى قدر نہيں كرتا تو ميں بہت جلد بھڑك اٹھتا ہوں، غالب طور پر ميں اپنا غصہ پى جاتاہوں اور موضع سے تجاہل كرتا ہوں. ليكن مشكل يہ ہے كہ ميرى منگيتر جس كے بارہ ميں اپنى غلطى كا اعتراف كرتا ہوں كہ ميں نے اسے قليل سے عرصہ ميں ہى ہر قسم كے تحفہ تحائف ديے اور اسے سارى محبت بھى دى ہے اس كى عقل اور سارے تصرفات اس كى والدہ كے ہاتھ ميں ہيں. ميں نے جس لڑكى سے نكاح كيا ہے اس كى عمر سترہ برس ہے اور ميرى بيوى نہ تو اپنے گھر سے باہر جاتى ہے اور نہ ہى لوگوں سے ميل جول ركھتى ہے، صرف اس كى والدہ يعنى ميرى ساس ہى سارے معاملات نپٹاتى ہے، حتى كہ ميرى اس سے شادى كے بعد بھى وہ اب ماں كے گھر ميں ہے اور رخصتى كا وقت بھى قريب آ رہا ہے. اس كى والدہ ہمارى ٹيلى فون كاليں تك سنتى ہے اور ميرى بيوى كے سارے حالات كى خبر گيرى كرتى رہتى ہے اور ميرى بيوى كا موبائل بھى چيك كرتى ہے اور اسے اپنى سوچ اور افكار كے مطابق مجھے جواب دينے كو كہتى ہے. مختصر يہ كہ اس لڑكى كى سوچ اور ارادہ سب كچھ ماں نے سلب كر ركھا ہے، ميں نے اس كى راہنمائى كرنے كى كوشش كى اور اسے كہا كہ وہ اس كے بارہ ميں اپنى والدہ كو مت بتائے ہمارے درميان جو باتيں ہوتى ہيں ان كى خبر بھى نہ ہو، ليكن اس كا كوئى فائدہ نہيں. ميرے سامنے تو كہتى ہے كہ ميں اسے افشاء نہيں كرونگى، ليكن ميرى اپنى ساس كے ساتھ بات چيت سے پتہ چلتا ہے كہ اس نے ماں كو سب كچھ بتا ديا ہے، اور جس پر ميں اور بيوى نے اتفاق كيا ہوتا ہے اسے اس كى ماں تبديل كر ديتى ہے اور وہ ماں كى بات مان كر اپنے وعدہ سے مكر جاتى ہے. اور بعض اوقات تو مجھے ايسے ميسج ملتے ہيں جو اس كى عمر سے بڑے ہوتے ہيں مجھے معلوم ہو جاتا ہے كہ ميرى ساس دخل اندازى كر رہى ہے، جب ميں اپنى منگيتر سے اس كے بارہ ميں ٹيلى فون پر بات چيت كرتا ہوں تو وہ ہڑ بڑا جاتى ہے اور اسے سمجھ نہيں آتى كہ وہ كيا كرے كيونكہ وہ ميسج اس كى عقل سے بڑا ہوتا ہے. ميں اس طوالت پر آپ سے معذرت كرتا ہوں، مختصر طور پر ميرى مشكل درج ذيل ہے: لڑكى اكھڑ اور تعصب و غصہ والى ہے، اور اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ بات كو قبول نہيں كرتى، بلكہ اپنے سارے معاملات اپنى والدہ كے سپرد كر ديتى ہے، اور اس كى والدہ بھى بہت تعصب والى ہے، اور جو اس كى بات نہ مانے اس سے حقد و كينہ اور ناراضگى ركھتى ہے، چاہے ميں اس كى نناويں باتيں تسليم بھى كر لوں اور صرف ايك ميں مخالفت ہو جائے تو ميرى ساس مجھ سے ناراض ہو جاتى اور مجھے نا پسند كرنے لگتى اور ميرى بيوى بھى مجھ پر ناراض ہو جاتى ہے، اور اس طرح ميرى بيوى يہ سمجھتى ہے كہ ميں نے اس كى والدہ كو ناراض كيا ہے، اور اس طرح اس كى خفگی ميں اضافہ ہو جاتا ہے. اور اب ميرى بيوى كہتى ہے كہ: وہ مجھ سے محبت كرتى ہے ليكن ميرے بارہ ميں پوچھتى تك نہيں، اور نہ ہى كبھى كوئى ميسج كيا ہے، اور جب ميں پہل كرتے ہوئے كوئى ميسج بھیجوں تو فورا جواب ديتى ہے ليكن ميرے بارے ميں كوئى سوال نہيں كرتى. كم از كم يہ كہ مجھ سے ناراض ہو تو وہ عناد ركھتى ہے اور اپنے معاملات ميں ميرے ساتھ بالكل خشك رويہ اپنانا شروع كر ديتى ہے، كيا ميں اسے طلاق دے دوں يا كہ اس كے تصرفات پر صبر و تحمل سے كام لوں اور جب وہ ميرے گھر آئے گى تو اس كے معاملات بہتر ہو جائيں گے ؟ يا ميں اس كے ساتھ كوئى نيا طريقہ اختيار كروں، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كى كوششوں ميں بركت عطا فرمائے.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں شادى شدہ ہوں شادى كے وقت ميں رہائش اور گھريلو ساز و سامان اور دلہن كو ديا جانے والے سونے سے دستبردار ہو گئى تھى كيونكہ ميرا خاوند باہر كے ملك ميں ملازمت كرتا تھا، چنانچہ عفت اختيار كرتے ہوئے شادى كى موافقت كر لى كہ ميں خاوند كے ساتھ باہر كے ملك جانے كے معاملات حل ہونے تك سسرال والوں كے ساتھ رہونگى. ليكن كچھ ہى عرصہ قبل جب ميں نے خاوند سے تنخواہ كے بارہ ميں دريافت كيا تو حيران رہ گئى كہ وہ تو اپنے امير ترين شادى شدہ بھائى كا تعاون كرتا ہے، اور اسى طرح وہ اپنے سارے خاندان كى معاونت كرتا ہے، حالانكہ ہميں اپنا مكان بنانے كے ليے مال كى زيادہ ضرورت ہے. جب ميں نے ايسا كرنے كى مخالفت كى تو خاوند نے ايسے معاملہ ميں دخل دينے كا الزام لگايا جو ميرے ساتھ خاص نہيں، اور كہنے لگا كہ اسے اپنے گھر والوں كے ليے خير و بھلائى كرنى چاہيے، اس كے ليے رہائش اور سونا مہيا كرنا لازم ہے، اس كے بعد مجھے خاوند كے مخصوص معاملات ميں دخل دينے كا كوئى حق نہيں. ميرا سوال يہ ہے كہ اس مسئلہ ميں ميرا خاوند كى مخالفت كرنا غلطى تو نہيں، كيا اس سے اللہ تعالى ناراض تو نہيں ہوگا ؟ ميرا خاوند مجھ سے دور ہو اور ميں اس كى جدائى برداشت كرتى پھروں اور ميں اس كى ممد و معاون بنوں، اور اپنے ميكے سے دور رہوں، ليكن اس عرصہ ميں اس كا بھائى ميرے خاوند كے مال سے فائدہ حاصل كرتا پھرے، حالانكہ خاوند كا بھائى اچھا خاصہ امير اور دولتمند بھى ہے، كيا ميرا خاوند اس مال كا زيادہ حقدار نہيں ہے ؟ اور اگر خاوند كى ضروريات سے مال زيادہ ہے تو اسے اپنے فائدہ كے ليے جمع كرنا چاہيے تھا تا كہ بعد ميں بوقت ضرورت استعمال كر سكے، يا پھر كسى مستحق اور فقير شخص پر صدقہ كر دے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميرا خاوند صحيح كر رہا ہے يا نہيں ؟ خاوند اپنے خاندان والوں كى محبت كے ليے مال صرف كرتا ہے، ميرے خيال ميں خاوند مجھ پر ظلم كر رہا ہے، اگر ميرے خاوند كے پاس مال زيادہ ہے تو فقير شخص اس كا زيادہ محتاج ہے، يا پھر ميں، آپ ہم دونوں ميں سے كسے صحيح خيال كرتے ہيں، اور اگر ميرا خاوند صحيح ہے تو آپ مجھے كيا نصحيت كريں گے تا كہ ہم آپس ميں ايك دوسرے كو معاف و درگزر كر ديں، اور ميں بھى اس كے اجروثواب ميں شريك ہو سكوں، اور اگر ميں صحيح ہوں تو آپ كيا كہتے ہيں ؟ اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ايك عورت كا خاوند سارا ہفتہ كام پر رہتا ہے، اور ہفتہ كے آخر ميں چھٹى والے دن اور رات اپنے دوستوں كے ساتھ گھونے نكل جاتا ہے، اور بيوى كو اكيلے ہى چھوڑ ديتا ہے. جب اس سے بات كى جائے تو دليل يہ ديتا ہے كہ يہ اس كا حق ہے، اور بيوى كو پورا ہفتہ حاصل ہے. تو كيا بيوى كو اس پر اعتراض كرنے كا حق حاصل ہے كہ كيونكہ خاوند سارى رات نہيں آتا اور دوستوں كے ساتھ بسر كر ديتا ہے ليكن نماز ضائع نہيں كرتا، اور وہ اپنا وقت بات چيت اور حقہ وغيرہ پى كر اور لڈو وغيرہ كى كھيل ميں بسر كر ديتے ہيں ؟ اور يہ بتائيں كہ اگر اللہ كى اطاعت ميں رات بسر كى جائے نہ كہ دوستوں كے ساتھ كھيل تماشہ ميں تو كيا پھر بھى وہى حكم ہو گا ؟

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں چوبيس برس كى ہوں ميرے ليےا يكن وجوان كا رشتہ آيا ہے جس ميں وہ سارى اخلاقى صفات موجود ہيں جنہيں ميں چاہتى ہوں، ميں نے اس نوجوان كو بہت پسند كيا، ليكن چند ماہ كے بعد يہ خبر ملى كہ وہ تو لواطت كا ارتكاب كرتا ہے، اس ليے ميرے والد صاحب نے فيصلہ كيا كہ وہ يہ شادى نہيں كرينگے، اور يہ فيصلہ اس تحقيق كے بعد كيا كہ وہ واقعى لواطت جيسى معصيت كا مرتكب ہے، اور ميرا دل اس كے ساتھ لگ چكا ہے، اور جو رشتہ بھى آتا ہے ميں انكار كر ديتى ہوں. وہ نوجوان اب دوبارہ ميرا رشتہ طلب كرنا چاہتا ہے اور مجھ سے محبت كرتا ہے؛ كيا يہ صحيح ہے كہ يہ شخص صحيح طريقہ سے ازدواجى تعلقات قائم نہيں كر سكتا، ميں زيادہ سے زيادہ معلومات حاصل كرنا چاہتى ہوں، اور كيا يہ ممكن ہے كہ شادى اس كى لواطت جيسى عادت ميں كمى كا باعث بن جائے ؟

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں اپنى مشكل كے متعلق مشورہ كرنا چاہتى ہوں اس كے حل كے ليے صحيح طريقہ كيا ہے، ميں شادى شدہ ہوں اور شادى كو ايك برس بھى نہيں ہوا، اور حاملہ بھى ہوں سب سے بڑى مشكل يہ ہے كہ مجھے چھيانوے فيصد شك ہے كہ ميرا خاوند غير محرم عورتوں سے محبت و غرام كى باتيں كرتا ہے كيونكہ اچانك مجھے اس كے موبائل فون كى كالز اور اس ميں موجود ميسج كے ليے اس كا انكشاف ہوا. اور اس كے تصرفات و معاملات بھى اس كى تصديق كرتے ہيں، مجھے بہت زيادہ صدمہ ہوا كيونكہ ميں نے خاوند كے حقوق ميں كسى طرح بھى كمى اور كوتاہى نہيں كى تا كہ وہ ميرے علاوہ كسى اور عورت كى طرف متوجہ ہى نہ ہو، برائے مہربانى جتنى جلدى ہو سكے ميرے سوال كا جواب ديں كيونكہ ميں اپنى زندگى كے بہت ہى مشكل ايام سے گزر رہى ہوں.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    آپ شكريہ كے مستحق ہيں، اور اللہ تعالى آپ كو اس ويب سائٹ كى جزائے خير عطا فرمائے، ميں اصل موضوع كى طرف آتى ہوں... ميرے والدين مجھے اتنے پيسے نہيں ديتے تھے جو ميرى ضروريات معاش كے ليے كافى ہوں، بعض اوقات مجھے رقم حاصل كرنے كے ليے جھوٹ كا سہارا لينا پڑتا تھا اور ميں ايسى اشياء بيان كرتى جن كى كوئى حقيقت نہ ہوتى، انہيں بھى اس كا علم ہوتا ليكن اس كے باوجود وہ صراحت نہ كرتے تا كہ ميں پيسے لينے كى عادت نہ بنا لوں، تو كيا اسے چورى شمار كيا جائيگا ؟ بعض اوقات ميں اپنى سہيليوں كے ساتھ كہيں جانا چاہتى تو ميں والدين سے اجازت اور پيسے لينے كے ليے جھوت بولتى تھى.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    اللہ تعالى آپ كو اتنى اچھى ويب سائٹ قائم كرنے پر جزائے خير عطا فرمائے، ميرے ذہن ميں جو سوال بھى ابھرا مجھے اس كا آپ كى ويب سائٹ سے جواب ضرور ملا. اس وقت ميرا سوال والدہ كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى كرنے كے متعلق ہے، ميرى عمر تقريبا بيس برس سے زائد ہے اور ہم پانچ بھائى ہيں سب ايك ہى گھر ميں والدہ كے ساتھ رہائش پذير ہيں، دس برس گيارہ برس قبل ہمارے والد صاحب فوت ہوئے تو ہمارى والدہ نے ہمارے سارے تعليمى اور معاشى اخراجات خود اٹھائے اور اس طرح ہم نے گريجويشن كر ليا. الحمد للہ اللہ كے فضل و كرم سے گھر كے سارے اخراجات اور بھائيوں كے اخراجات بھى ميں برداشت كرتا ہوں، ليكن درج ذيل دو اشياء كے بارہ ميں دريافت كرنا چاہتا ہوں: اول: ايك بار بہت بڑى رقم جو ميں نے جمع كر ركھى تھى ميرى والدہ نے خرچ كر لى كيونكہ ميرے ماموں كى مالى حالت بہت تنگ تھى تو والدہ نے وہاں رقم خرچ كر دى تو اس وقت ميں بہت ناراض ہوا كہ والدہ نے مجھے بتائے بغير ميرے پيسے وہاں صرف كر ديے. ليكن ميں نے ناراضگى كے متعلق والدہ كو نہيں بتايا اور اس رقم كے متعلق ميں نے والدہ سے كوئى باز پرس بھى نہيں، گويا كہ كچھ ہوا ہى نہ ہو. ليكن اس كے كئى ماہ بعد ميرى بڑى بہن كو آپريش كى بنا پر بہت زيادہ مالى تنگى سے گزرنا پڑا، تو اس وقت بھى والدہ نے پہلا جيسا عمل ہى كيا، اور جو رقم ميں نے دوبارہ جمع كى تھى وہ بھى مجھے بتائے بغير وہاں خرچ كر دى. ميں نے سوچا كہ مجھے اس سلسلہ ميں خاموش نہيں رہنا چاہيے بلكہ بات چيت كرنى چاہيے تاكہ پھر دوبارہ ايسا نہ ہو، ميں نے بات كى تو والدہ نے كہا آپ كى بہن كو پيسوں كى ضرورت تھى تو ميں نے اسے دے ديے اور تجھے بتانا بھول گئى تو ميں نے والدہ سے كہا كہ ميرے علم كے بغير آپ ميرے پيسے خرچ مت كيا كريں، تو والدہ نے خاموشى اختيار كر لى ليكن مجھے بعد ميں محسوس ہوا كہ والدہ كے ساتھ مجھے ايسا نہيں كرنا چاہيے تھا. ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميرى والدہ كو ميرے مال ميں ميرے علم كے بغير تصرف كا حق حاصل ہے ؟ ميں نے يہ بات صرف اس ليے كى كہ دوبارہ ايسا نہ كيا جائے، كيا ميرا يہ عمل اور والدہ كو كہنا غلط تو نہيں تھا ؟ دوم: دوسرا سوال اوپر بيان كردہ معلومات اور نيت كے متعلق ہے: ميں نے نيت كر ركھى تھى كہ گھر كے سارے اخراجات اور بھائيوں كا خرچ اللہ كے ليے ميں خود ہى برداشت كرونگا، تاكہ والدہ سے صلہ رحمى اور حسن سلوك كر سكوں، اكثر اوقات ميرے اور والدہ كے مابين كسى چيز ميں بہت زيادہ اختلافات ہو جاتے ہيں، ان اختلافات كے بعد مجھے شيطانى وسوسہ سا ہوتا ہے كہ تمہارى نيت خالص اللہ كے ليے نہ تھى، اور خاص كر جب يہ اختلافات پيسوں اور خرچ كرنے كے طريقہ كے بارہ ميں ہوتے ہيں، ميں ڈرتا ہوں كہ كہيں ميرى نيت ميں فتور تو نہيں برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ ميں اپنى نيت كو كيسے كنٹرول كر سكتا ہوں تا كہ شيطانى وسوسوں سے بچ كر خالصتا اللہ كے ليے نيت ركھوں ؟

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميں ايك طويل عرصہ سے اپنى ساس اور نندوں كے ساتھ رہ رہى ہوں، ابتدا ميں تو مجھے علم نہ تھا كہ ميں اپنى ساس اور نندوں كے ساتھ رہوں گى، ليكن مجبورا ناپسند كرتے ہوئے بھى مجھے اس پر راضى ہونا پڑا، اور ميں نے كئى برس تك ساس اور نندوں كے ساتھ رہنے ميں صبر كيا اور اس عرصہ ميں ان سے كوئى معاونت بھى حاصل نہيں كى. نندوں اور ميرے درميان سمجھوتہ نہ ہونے كے باوجود بھى ميں سب كو راضى كرنے كى كوشش كرتى رہى، ابتدا ميں تو ميرا خاوند بھى اپنى والدہ كے ساتھ رہ كر اور ميرى خدمت كے ذريعہ والدہ كو راضى كرنے كى كوشش كرتا رہا حالانكہ گھر بہت چھوٹا تھا اور اولاد زيادہ تھى. ميں چھوٹے بچوں كے ساتھ ايك كمرہ ميں اور خاوند برآمدہ ميں اور باقى بچے دوسرے كمرہ ميں سوتے ہيں، اور حالت يہ ہے كہ بچہ بچى كے ساتھ اور ساس اور ننديں سب ايك كمرہ ميں سوتى ہيں، ميرى كوئى خاص زندگى نہيں اور نہ ميرے اندر شادى شدہ ہونے اور خاوند اور بچوں كى ديكھ بھال كرنے كا كوئى احساس پايا جاتا ہے، ميرا خاوند اپنى والدہ سے دور نہيں ہونا چاہتا چاہے رہائش قريب ہى ہو پھر بھى نہيں چاہے اس كے مقابلہ ميں اسے مجھے بھى چھوڑنا پڑے. ميرى ہر وقت خاوند سے يہى لڑائى اور جھگڑا رہتا ہے كہ ميں اس طرح كے ماحول ميں نہيں رہ سكتى، اور عليحدہ رہائش كا مطالبہ كرتى رہتى ہوں تا كہ ہمارے تعلقات صحيح ہوں، ليكن وہ نہيں مانتا، اب تو ميں طلاق كا بھى سوچنے لگى ہوں، اور سوچ رہى ہوں كہ اپنے والد كو بھى اپنى مشكلات كے متعلق بتاؤں تا كہ وہ اسے حل كرنے كے ليے دخل اندازى كريں ليكن صرف اولاد اور اپنى ساس كى بنا پر تردد ميں ہوں كيونكہ ميرى ساس ہمارے قريبے رشتہ داروں ميں سے ہے. ميں نفسياتى مريض بن چكى ہوں اور اس زندگى كى تنگى كى وجہ سے چڑچڑا پن آ چكا ہے مجھے سمجھ نہيں آ رہى كہ ميں كيا كروں ؟ ميرا خاوند اس معاملہ كو اہميت ہى نہيں ديتا اور نہ ہى مجھے اس محروميت كے عوض ميں كوئى خوشى ديتا ہے كہ كوئى اچھى كلام اور بات كرے جو مجھے صبر دلانے كا باعث بنتا ہو، اس كے ليے يہى اہميت ركھتا ہے كہ ميں كسى طرح اس كى والدہ كو راضى ركھوں، اور اس كى ديكھ بھال كروں، حالانكہ ميرا خاوند ديندار ہے، ميرا خاوند اپنى والدہ كو بہت چاہتا ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ اس حالت ميں شرعى حكم كيا ہے، اور كيا اس مسئلہ ميں ميرا والد دخل اندازى كر سكتا ہے، ميرے والد صاحب بہت غصہ والے ہيں، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا ميرا عليحدہ رہائش طلب كرنا چاہے قريب ہى ہو خاوند كے ليے والدہ كى نافرمانى كا باعث تو نہيں ہوگا ؟ ميرى نندوں نے ميرى جوانى اور صحت لوٹ لى اور برباد كر دى ہے، اور ميرے خاوند اور بچوں كے ساتھ ميرى زندگى ميں شريك بن چكى ہيں، مجھے كوئى حل بتائيں، اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے علم و عمل ميں بركت فرمائے.

  • اردو

    PDF

    مُفتی : محمد صالح

    ميرى شادى كو كم از كم پندرہ برس ہو چكے ہيں اور ميرا خاوند بڑا مہربان ہے، ہم ايك دوسرے كے واجبات ادا تو كر رہے ہيں ليكن ايك دوسرے سے لگاؤ نہيں ہے، اسى طرح ہمارے جنسى تعلقات بھى بہت كم ہيں، صرف واجبى حق ہى ادا ہوتا ہے. اتنے برسوں كے بعد بھى ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميرى ازدواجى زندگى سعادت والى نہيں اور ميں اللہ كا شكر ادا نہيں كرتى، بلكہ پچھلے دو ماہ سے تو ميں ايك دوسرے شخص ميں دلچسپى لينے لگى ہوں جو ميرى عليحدگى كے بعد مجھ سے شادى كرنا چاہتا ہے، ميں يہ محسوس كرنے لگى ہوں كہ اگر اپنى اس خاوند سے عليحدہ نہ بھى ہوئى تو ميں اپنے خاوند كے ساتھ مخلص نہيں رہونگى. اس ليے آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں كہ اس حالت ميں دين اسلام ہميں كيا كہتا ہے، ميں نے اپنى دنيا تو ضائع كر لى ہے، ليكن اپنى آخرت ضائع نہيں كرنا چاہتى، برائے مہربانى ميرے سوال كا جواب ضرور ديں، ميں ايسے افراد سے دريافت نہيں كرنا چاہتى جو دين اسلام كا علم نہيں ركھتے ميرى اس مشكل كا حل صرف علماء كرام ہى بتا سكتے ہيں اگر يہ جگہ ميرے سوال كے ليے مناسب نہيں تو برائے مہربانى آپ مجھے كسى ايسے عالم دين كا بتائيں جو ميرى مشكل كو حل كر سكے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.