• اردو

    شیخ محمد بن صالح المنجد ۔ حفظہ اللہ۔ سے پوچھا گیا : مجھ پر رمضان کے روزے كى قضاء باقی ہے اور ميں عاشوراء(دس محرّم) كا روزہ ركھنا چاہتا ہوں، تو كيا ميرے ليے قضاء پورا کرنےسے پہلے عاشوراء كا روزہ ركھنا جائز ہے ؟ اور كيا ميں عاشوراء (دس محرم) اور گيارہ محرم كا روزہ رمضان كى قضاء كى نيت سے ركھ سكتا ہوں؟ اور كيا مجھے عاشوراء كے روزے كا اجروثواب حاصل ہو گا "؟

  • اردو

    شیخ محمد صالح المنجد -حفظه الله- سے پوچھا گیا : میرا چچا زاد ایک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے، اور ڈاکٹروں کے مطابق اسکے بچنے کی پچاس فیصد امید ہے، ہمیں کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کیلئے ذبح کردو، تو کیا ہمارے لئے ایسا کرنا جائز ہوگا؟

  • اردو

    ملتزم سے كيا مراد ہے، اور وہاں دعا كى كيا كيفيت ہو گى ؟

  • اردو

    شیخ محمد صالح المنجد -حفظه الله- سے پوچھا گیا : کہ كيا گھر ميں نماز تراويح ادا كرنا جائز ہے ؟ اور كيا خاوند امام بن كر بيوى كے ساتھ نماز تراويح ادا كر سكتا ہے ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ہمارى مسجد ميں جو لوگ اذان ديتے اور نماز كراتے اور خطبہ جمعہ ديتے ہيں وہ بہت سارى بدعات كا ارتكاب بھى كرتے ہيں، كيا ہم انہيں طاقت كے زور پر مسجد سے نكال سكتے ہيں ہم نے انہيں كئى بار نصيحت كى ہے كہ وہ بدعات كو ترك كر ديں ليكن وہ ترك نہيں كرتے، كيا انہيں بزور بازو نكال ديا جائے ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    موسيقى لگانے والے نائى كى دوكان پر جانے كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں دل ميں اللہ كا ذكر كرتا رہا ہوں، اور ميرے قريب كوئى ايسى باربر شاپ نہيں جو موسيقى نہ لگاتے ہوں، كچھ ايسے ہيں ليكن وہ حجامت صحيح نہيں بناتے ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ويب سائٹس اور مجلسوں ميں عورتوں كى تصاوير اور گانے اور برائى منتشر ہيں، ويب سائٹ پر گانے بجانے، اور فنكارى اور سينما اور مختلف چينل كى قسم كھولنے كا حكم كيا ہے ؟ اور كيا ويب سائٹ كا نگران اعلى اور باقى ممبران پر بھى اس كا گناہ ہو گا ؟ بعض يہ عذر پيش كرتے ہيں كہ: ہم يہاں كسى كو عورتوں كى تصاوير كا اضافہ كرنے پر مجبور تو نہيں كرتے، اور نہ ہى انہيں اپنى تصوير لگانے كو كہتے ہيں، اسى طرح كيا وہاں كوئى موضوع لكھنے والے كا عورت كى تصوير لگانے كا گناہ نگراں يا منیجر يا ويب سائٹ كے مالك پر بھى ہو گا ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    مسلمان شخص كى كيتھولك عيسائى بيوى كو اپنے دنيى تہوار منانے كى اجازت كيوں نہيں، حالانكہ وہ مسلمان سے شادى شدہ ہے اور اپنے عقيدہ پر بھى قائم ہے ؟ كيا اس عيسائى بيوى كو اپنے اعتقاد كے مطابق عبادت كرنے كى اجازت ہے ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميں نے ايك عيسائى عورت سے شادى كر ركھى ہے اور اس سے ميرے دو بچے بھى ہيں، ايك رمضان المبارك كے مہينہ ميں ايسا ہوا كہ ميں افطارى كر رہا تھا كہ كھانے كے دوران ميرى بيوى نے شراب نوشى شروع كر دى، اور ميں اسے اس سے نہ روك سكا، كيونكہ اگر ميں روكنے كى كوشش كرتا تو وہ طلاق كا مطالبہ كرتى اور ہو سكتا ہے طلاق كى صورت ميں بچوں كى پرورش كا حق بھى حاصل كر ليتى، اس طرح ميرے ليے بچوں كو دين اسلام كى تعليم دين مشكل ہو جاتا. ميرا سوال يہ ہے كہ كيا رمضان المبارك ميں جب وہ شراب نوشى كرے اور اس كے خاندان والے شراب نوشى كريں تو كيا ميرے ليے ان كے ساتھ بيٹھنا حرام ہے، حالانكہ ميں شراب نوشى نہيں كرتا ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ہمارے ملك ميں شادى بياہ كى تقريبات موسقيى و گانے اور رقص و سرور پر مشتمل ہوتى ہيں، كيا اگر ميں شادى ميں تقريب ميں جا كر گانے كى مجلس سے دور بيٹھوں خاص كر اپنے اور سسرالى خاندان كى شادى تقريب ميں جاؤں تو كيا گنہگار ٹھرونگى، ميں وہاں نہ جانے اور كھانے وغيرہ مباح امور ميں شركت نہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتى ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    الحمد للہ ميرى چھ ماہ قبل شادى ہوئى اور ميں اپنے خاوند كے ساتھ سعودى عرب ميں رہ رہى ہوں، ميرا خاوند مصرى ہے اور ميں اصلا جرمن ہوں اور امريكہ كى شہريت حاصل كر ركھى ہے، ميرا خاوند مجھے طلاق دينا چاہتا ہے كيونكہ ميں نے ساس سسر سے عليحدہ رہائش كا مطالبہ كيا تھا حالانكہ ہم اس وقت خاوند كے والدين كے ساتھ نہيں رہتے بلكہ وہ مصر ميں رہتے ہيں. وہ چند ہفتے قبل مصر جانے سے پہلے ہمارے ہاں سعوديہ ميں تين ماہ رہ كر گئے ہيں ميرا خاوند بھى واپس جانے كا سوچ رہا ہے اور والدين كے ساتھ ہى رہنا چاہتا ہے، تا كہ ميں اس كے والدين كى خدمت كر سكوں، ميں نے خاوند كو بتايا اس كا والدين كے بارہ ميں سوچنا اور ان سے محبت ركھنا ايك اچھى چيز ہے، ليكن ميں ايك بيوى كى حيثيت سے مستقل طور پر اس كى والدين كے ساتھ ايك ہى گھر ميں نہيں رہ سكتى، اس نے وعدہ كيا ہے كہ ہم اسى گھر ميں اوپر والى منزل پر رہيں گے تا كہ والدين كى خدمت كر سكيں، اور ان كى ضروريات پورى كى جائيں، ميں نے اسے بتايا كہ اسلامى اور شرعى طور پر يہ ميرا كام نہيں كہ ميں ان كى خدمت كروں، اس ليے كہ اسلام ميں كوئى ايسى نص اور دليل نہيں ملتى جو اس كے نظريہ كى دليل ہو. اس طرح ميرے بھى والدين ہيں ان كى خدمت كرنا بھى مجھ پر فرض ہے، اور ان سے صلہ رحمى كرنا اور ان كى ضروريات پورى كرنا مجھ پر بھى عائد ہونگى، ميرا خاوند اس پر متفق ہے كہ ميرے والدين كو جب بھى ميرى ضرورت ہوگى وہ ان كى خدمت كے ليے مجھے جانے سے منع نہيں كريگا، ليكن جب ابھى اس كى ضرورت نہيں تو ميرے والدين كى خدمت كرو، ميں نے سوچا ہے كہ يہ ہے تو اچھا ليكن اگر مجھ سے اس كے والدين كى خدمت صحيح نہ ہو سكى يا پھر ميرا خاوند اس پر مطمئن نہ ہوا تو يہ مجھے طلاق كا باعث بن سكتا ہے، ليكن ميں ايسا پسند نہيں كرتى، كيونكہ اس كے والدين كى خدمت اور گھر كى ديكھ بھال ميرا ذمہ نہيں ہے، ميں نے واضح كيا ہے كہ مجھے ان كى خدمت ميں كوئى اعتراض نہيں اگر ميرا گھر ان كے قريب ہى ہوا تو ميں ان سے اچھے تعلقات ركھوں گى اور ان كى ديكھ بھال بھى كرونگى اور ضرورت كے وقت گھريلو معاملات ميں بھى ہاتھ بٹاؤں گى ليكن ميں مستقل طور پر ايسا پسند نہيں كرتى، مثلا يہ كہ اگر ايسا نہ كروں تو مجھے سزا دى جائے يا پھر اسے مجھ پر لازم كيا جائے يا پھر اس كى مرضى كے مطابق نہ ہو تو مجھ پر دباؤ ڈالا جائے. ميں نے اس سے پورى وضاحت كے ساتھ بات كى ہے ليكن وہ مجھے طلاق دينا چاہتا ہے كيونكہ ميں اپنى ساس اور سسر كے ساتھ ايك ہى گھر ميں نہيں رہنا چاہتى، كيونكہ مجھے تجربہ ہے كہ ان كے ساتھ رہنے سے مجھے اپنى خصوصيت اور خاوند كے ساتھ خاص وقت بسر كرنے سے بھى ہاتھ دھونا پڑيں گے، كيونكہ گھر كے كام كاج ميں مصروف رہوں گى، افسوس ہے كہ انہوں نے اور باقى رشتہ داروں نے ميرى غيبت بھى كرنا شروع كر دى ہے جس كا خاوند كو علم نہيں، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت فرمائيں تا كہ خاوند كے ساتھ محبت و مودت اور نرمى كے ساتھ معاملہ طے كر سكوں دو دن سے تو وہ ميرے ساتھ سوتا بھى نہيں بلكہ عليحدہ كمرہ ميں اكيلا سوتا ہے، برائے مہربانى ميرى مدد كريں.

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرى والدہ اور ميرى بيوى كے مابين تعلقات بہت خراب ہيں، اور اس درجہ تك خراب ہو گئے ہيں كہ ميرى والدہ ميرى بيوى كا چہرہ بھى نہيں ديكھنا چاہتى، والدہ چاہتى ہے كہ ہم عليحدہ ہو جائيں، ليكن ميں اپنى والدہ كو نہيں چھوڑنا چاہتا كيونكہ ميں خاندان ميں بڑا بيٹا ہوں، اور اسى طرح ميں انہيں ناراض بھى نہيں كرنا چاہتا، تو كيا ميں اپنى بيوى كو طلاق دے دوں ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرى ايك سہيلى نقاب اوڑھتى ہے اور تعليم ميں كچھ پيچھے رہ گئى تو اس كے والد نے كہا يہ سب كچھ اس نقاب كى وجہ سے ہوا ہے، اور اس نے لڑكى كى والدہ پر قسم كھائى كہ اگر لڑكى نے نقاب نہ اتارا تو لڑكى كى ماں كو طلاق، اب اس لڑكى كو كيا كرنا چاہيے ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميں ايك ايسے شخص سے شادى شدہ ہوں جو مجھ سے محبت نہيں كرتا، اور نہ ہى ميرے اخراجات برداشت كرتا ہے اور ميرے ساتھ معاملات بھى صحيح نہيں كرتا، اور سنت پر ميرا عمل كرنا بھى اسے برا لگتا ہے، اور مجھے ملازمت كرنے پر مجبور كرتا ہے، ميں اس سے خلع لينا چاہتى ہوں، ليكن ميرے والدين انكار كرتے ہيں، اس سلسلہ ميں شريعت كى رائے كيا ہے ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرى مشكل يہ ہے كہ ميں بچپن سے ہى والد صاحب پر اعتماد كرتا رہا، ميرا سارا خرچ والد صاحب ہى برداشت كرتے رہے، اور ہر چيز لا كر دى ـ ميں اپنى تعليم اس ليے مكمل نہ كر سكا كہ والد صاحب كا اصرار تھا كہ ميں ان كے ساتھ تجارتى معاملات ميں ہاتھ بٹاؤں، اس ليے ميں نے مڈل تك ہى تعليم حاصلى كى، حالانكہ ميں ان كے ساتھ كام نہيں كرنا چاہتا تھا اس كے باوجود والد صاحب كے اصرار پر ميں نے ان كے ساتھ دينا شروع كر ديا. اور وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ ميں كام كرنے كا عادى بھى ہو گيا، اور تقريبا ساٹھ فيصد كام كو پسند كرنا شروع كر ديا، ميں نے والد صاحب كے ساتھ مسلسل سولہ برس تك كام كيا ہے، جس ميں كوئى واضح ترقى نہ ہوئى، يا پھر ميں محسوس كرتا ہوں كہ ميرى ايك اچھى آزمائش تھى. اللہ تعالى والد صاحب كو جزائے خير عطا فرمائے ميرے سارے اخراجات وہى كرتے رہے، ابتدائى برسوں ميں تو ميں بغير تنخواہ كے كام كرتا رہا، والد صاحب مجھے ايك ہفتہ كا خرچ دے ديتے، يا پھر ميں انصاف كى اور سچى بات كروں تو مجھے اتنا خرچ دے ديتے جو ايك ماہ كے ليے كافى ہوتا. ليكن يہ خرچ اتنا نہيں تھا كہ ميں اس سے كچھ بچا سكوں، اسى طرح دن گزرتے رہے، اور ميں نے شادى كرنے كا فيصلہ كيا، اللہ تعالى والد صاحب كو جزائے خير عطا فرمائے انہوں نے شادى كے اخراجات كيے، اور مجھے اپنے گھر ميں ہى ايك فليٹ رہائش كے ليے دے ديا، ميں اس نيكى كا كبھى انكار نہيں كرونگا. اس كے بعد والد صاحب نے دو ہزار ريال ميرى تنخواہ مقرر كر دى، اور كچھ سال كے بعد بڑھا كر تين ہزار كر دى، ليكن ميں محسوس كرتا تھا كہ ميں اپنے اس كام پر راضى نہيں ہوں، كيونكہ يہ تنخواہ ميرى ذاتى اور گھريلو ضروريات كے ليے كافى نہ تھى. تين برس گزرنے كے بعد ميں نے اپنے والد صاحب كى جانب سے برا سلوك ديكھنا شروع كرديا جو بعض اوقات تو گاليوں تك پہنچ جاتى اور دوسروں كو مجھ پر فضيلت ديتے كہ تم سے تو فلاں شخص ہى اچھا ہے، اور فلاں شخص ديكھو وہ تم سے بہتر ہے... ميں محسوس كرنے لگا كہ والد صاحب دوسروں كو اچھا سمجھتے ہيں، اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرتے ہيں، ليكن ميرے بارہ ميں ان كا رويہ اچھا نہيں ميرے ساتھ معاملات اچھے نہيں كر رہے، مجھے والد صاحب كوئى كام كرنے كا كہتے اور مجھے اس كا صلہ دينے كا بھى وعدہ كرتے ليكن بعد ميں فيصلہ تبديل كرتے ہوئے اپنا وعدہ پورا نہ كرتے اور كہتے كہ مجھے تو كوئى وعدہ ياد نہيں ہے، يا پھر كہتے كہ تم نے كام ميں كوتاہى كى ہے، اس كے علاوہ كئى طرح كے بہانے بنا كر انكار كر ديتے. اس سب كچھ كے بعد انہوں نے ميرى تنخواہ بھى كم كر كے دو ہزار ريال كردى حالانكہ ميرى عمر اب سينتيس برس ہو چكى ہے، اور ميں شادى شدہ ہوں اور ميرى اولاد بھى ہے، اور ميرے ذمہ كئى قسم كى ذمہ دارياں ہيں، بلاشك آپ كو علم ہے كہ اس وقت مہنگائى كتنى ہو چكى ہے، دو ہزار ريال كس طرح ايك ماہ كے اخراجات پورے كر سكتے ہيں، اور آئندہ مستقبل كى كيا ضمانت ہو سكتى ہے ؟ اور مستقبل ميں بچوں كے ليے كيا بنايا جا سكتا ہے، مجھے كئى قسم كے افكار اور سوچيں گھيرے ركھتى ہيں كہ ميں كوئى اور كام كر لوں، ليكن جب بھى ميں والد صاحب كا سوچتا ہوں تو مجھے پريشانى لاحق ہو جاتى ہے، اور ميں خوف محسوس كرتا ہوں كہ والد صاحب اكيلے رہ جائيں گے اور وہ اس كا اثر بھى ليں گے. اور اسى طرح ميں ان كى ناراضگى كا خدشہ بھى محسوس كرتا ہوں، جب انہيں علم ہوگا كہ ميں كوئى اور كام تلاش كر رہا ہوں تو وہ ناراض ہونگے، كيونكہ وہ ہر مسئلہ ميں مجھ پر اعتماد كرتے ہيں، چاہے تجارت ہو يا گھر كا كام، يا خاندان كا كوئى معاملہ ہو، ہر كوئى يہى كہتا ہے كہ ميں ہى اس خاندان كا سب كچھ اور محور ہوں. وہ يہ سمجھتے ہيں كہ اس كام كے پيچھے مجھے بہت كچھ ملتا ہے، حالانكہ فى الواقع ايسا نہيں ہے، بلكہ ميں تو يہ سمجھتا ہوں كہ اس ميں جو خير پائى جاتى ہے وہ يہ كہ اللہ كے حكم سے ميں حسب استطاعت اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك كر رہا ہوں، حالانكہ مجھے وہ كچھ حاصل نہيں ہوتا جو ميرے باقى بھائي حاصل كرتے ہيں. ميرے سارے بھائى مجھ سے چھوٹے ہيں، اور ميں ہى سب سے بڑا ہوں، وہ سب اچھى ملازمت كر رہے ہيں اور ان ميں سے سب كى كم از كم تنخواہ پانچ ہزار ريال ماہانہ ہے، اور پھر وہ غير شادى شدہ ہيں، ليكن ميرى تنخواہ صرف دو ہزار ريال ہے، مجھے علم ہے كہ ميرے مقدر ميں يہى ہے، اور روزى كى تقسيم تو اللہ سبحانہ و تعالى ہى كرتا ہے اس نے ہر انسان كا رزق اور اسكى زندگى اور تقدير لكھ ركھى ہے... اللہ گواہ ہے ميرا اس پر ايمان ہے كہ يہ اللہ كى جانب سے ہے، اللہ نے ميرے ليے جو لكھ ركھا ہے ميں اس پر راضى ہوں، اللہ سبحانہ و تعالى نے انسان كے ليے بہتر ہى لكھا ہے، ہر حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ہے. ليكن انسان طبعى طور پر كمزور واقع ہوا ہے، اور وہ بعض اوقات دنياوى امور كى طرف مائل ہو كر اس كى جانب جھك جاتا ہے، كہ وہ اپنے كسى دوست يا كسى رشتہ دار يا پھر اپنے ارد گرد رہنے والوں كو ديكھتا اور كہتا ہے كہ: ميں بھى ان جيسى صفات كا مالك كيوں نہيں، وہ اچھا لباس زيب تن كرتے ہيں، اور بہترين گاڑيوں پر سفر كرتے ہيں اور اپنى اولاد كے ليے جو چاہيں لا كر ديتے ہيں ..... ليكن ميں ايسا نہيں ؟ بعض اوقات ميں بھى محسوس كرتا ہوں كہ ميں بھى اس امر واقع كے سامنے سرتسليم خم كر چكا ہوں، ميرے پاس كوئى اچھى ملازمت نہيں ہے، اور نہ ہى ميرے پاس كوئى ايسى تعليمى ڈگرى ہے جو مجھے كوئى اچھى ملازمت دلا دے جس كے ذريعہ ميں اپنے بيوى بچوں كے صحيح طرح اخراجات پورے كر سكوں، اور نہ ہى ميرے پاس كوئى جمع پونجى ہے جس كے ذريعہ كوئى كاروبار شروع كروں. خلاصہ يہ ہے كہ: اس وقت تو ميرى حالت اور بھى زيادہ خراب ہو چكى ہے كيونكہ گھريلو اخراجات بڑھ چكے ہيں اور ميں محسوس كرتا ہوں كہ دنيا ميرے سر پر سوار ہے ميں اس كا وزن برداشت نہيں كر سكتا، ہر وقت پريشان اور غم كا شكار رہتا ہوں، اور دن بدن نيچے كى طرف ہى جا رہا ہوں، اور پريشانى بھى بڑھ رہى ہے. اس ليے ميں نے يہ فيصلہ كيا كہ مجھے كوئى اور كام كرنا چاہيے، اور اس كوئى ايسا كام تلاش كروں جو ميرے حالات بدل دے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ كسى بھى وقت اپنى بيوى كھو سكتا ہوں، كيونكہ وہ مجھے ہر وقت كوئى اور كام تلاش كرنے پر ابھارتى رہتى ہے، كيونكہ وہ خود بھى ملازمت كرتى ہے اور ميرى تنخواہ سے تين گناہ زيادہ تنخواہ ليتى ہے، اور گھريلو اخراجات ميں ميرى مدد كرتى، بلكہ مجھ سے بھى زيادہ اخراجات برداشت كرتى ہے. ليكن مرد كى بھى كوئى عزت ہونى چاہيے، اور اس كے نفس كى عزت ہو، ميں جانتا ہوں كہ ان دنياوى امور ميں بيوى اپنے خاوند كى معاونت كر سكتى ہے اس ميں كوئى حرج نہيں ليكن معاملہ مختلف ہے كيونكہ وہ ميرى عيالدارى ميں ہے اس كے اخراجات ميرے ذمہ ہيں، بلكہ ايك دفعہ تو ايسا بھى ہوا كہ ميرى بيوى ميرے فقر كى بنا پر اپنے ميكے بھى چلى گئى اور وہ اس صورت حال سے خوش نہيں ہے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ وہ حق پر ہے. وہ ايسا كرے بھى كيوں نہ، اور كيسے اپنے ميكے جا كر نہ بيٹھے، كيونكہ وہ ديكھتى ہے كہ اس كى سارى سہيلياں اور سارى بہنيں شادى شدہ ہيں اور وہ اپنے ملكيتى گھروں ميں رہتى ہيں، اور اچھى سے اچھى گاڑى ركھى ہوئى ہے، اور بہتر سے بہتر وسائل راحت اختيار كيے ہوئے ہيں، ليكن اسے ان اشياء ميں سے كچھ بھى حاصل نہيں ہے. اہم يہ ہے كہ ميں نے جب بھى عزم كيا يا ارادہ كيا كہ ميں كوئى اور كام تلاش كروں تو مجھے خوف اور ڈر سا لگا رہتا ہے كہ كہيں مستقبل ميں ناكام نہ ہو جاؤں، جيسا كہ ميں اوپر كى سطور ميں بيان كر چكا ہوں كہ ميں اپنے والد صاحب پر ہى اعتماد كرتا رہا ہوں، اور ميں نے كبھى بھى عليحدہ اكيلے كام نہيں كيا، ميرے والد صاحب نے مجھے عادى بنا ديا ہے كہ ميں ہر چيز ميں ان ميں پر اعتماد كرنے لگا ہوں، اور ميں يہ نقطہ ان كى مصلحت كے ليے ہى استعمال كرتا ہوں. ليكن اب مجھے ايك ايسا كام ملا ہے جس كے بارہ ميں معلومات اكٹھى كرنے اور الحمد للہ استخارہ كرنے كے بعد مجھے علم ہوا ہے كہ اس ميں ان شاء اللہ خير پائى جاتى ہے، ليكن اندر سے مجھے بہت زيادہ ڈر بھى محسوس ہو رہا ہے استخارہ كے بعد مجھے پچاس فيصد سكون حاصل ہوا ہے، ليكن باقى خوف اور حيرانى پائى جاتى ہے كہ كہيں ناكام نہ ہو جاؤں، ميں وضاحت كے ساتھ بتانا چاہتا ہوں كہ وہ كام درج ذيل ہے: سامان كى نقل و حمل كے ليے گاڑى چلانا، كہ ہر چيز ايك علاقے سے دوسرے علاقے ميں نقل كى جائے كچھ لوگ حتى كہ ميرے بھائى بھى مجھے يہ كام كرنے پر طعنے ديتے اور عار دلاتے ہيں، حتى كہ ابتدا ميں تو ميرے والد صاحب بھى ميرے ساتھ مذاق كرنے والوں ميں شامل تھے. ان كا كہنا تھا كہ ميں نے وہ كام شروع كيا ہے جو دوسرے ملكوں سے يہاں كر دوسرے ملازمين كرتے ہيں، ليكن مجھے تو يہ كام اچھا لگا ہے، ميں اس سے اپنى روزى كماتا اور اپنے بيوى بچوں كے اخراجات پورے كرتا ہوں، اللہ سے توفيق كى دعا ہے. برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كام كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟ اور ميرى حالت كے بارہ ميں آپ كى رائے ميں كيا حل ہے اور مجھے كيا كرنا چاہيے، اور كيا اگر ميں اپنے والد سے عليحدہ اور دور رہ كر كوئى كام كرتا ہوں تو كيا ميں نافرمان كہلاؤنگا، كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں ميں والد صاحب كا نافرمان نہ بن جاؤں، اللہ سے ميرى دعا ہے كہ ميں اپنے والدين سے حسن سلوك كرنے والا بنوں ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرى بہن كى شادى كو آٹھ ماہ ہوئے ہيں، اور اسے شكايت ہے كہ وہ اپنے خاوند سے محبت نہيں كرتى اس ليے طلاق چاہتى ہے، حالانكہ اس كا خاوند ايك اچھے اخلاق والا اور صاحب علم اور نوجوانوں ميں افضل ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ ان دونوں كى اصلاح كے ليے آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں، يا كہ ان كے ليے طلاق ہى مناسب ہو گى ؟

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرے عزيز بھائيو ميں كيتھولك مذہب ركھنے والى عورت ہوں اور كئى برس سے شادى شدہ بھى ميرى خوبصورت سى دو بيٹياں بھى ہيں، تقريبا پانچ برس سے ميں اپنے خاوند كو پسند نہيں كرتى، ليكن طلاق كے متعلق كبھى سوچا بھى نہيں تھا، كيونكہ ميرا دين اس كى اجازت نہيں ديتا. پچھلے برس ميں اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھ سكى اور ايك چھوٹى عمر كے مسلمان نوجوان كے ساتھ حرام تعلقات قائم كر بيٹھى، اور اس بنا پر كہ وہ ہمارے ليے ايك فليٹ كرايہ پر لے ميں نے اس كے ساتھ عرفى نكاح پر دستخط بھى كر ديے، ليكن جب اس كے خاندان والوں كو علم ہوا تو اس نے وہ كاغذ پھاڑ ديا، ہمارے يہ تعلقات صرف ايك ہفتہ رہے اور پھر ميں نے توبہ كر لى، اور وہ بھى اس سے توبہ كر چكا ہے. اور اس نے اب ايك مسلمان لڑكى سے منگنى كر لى ہے، اور مجھے بھى پچھلے ماہ ايك اچھا سا مسلمان شخص ملا جو شادى شدہ بھى ہے اور اس كے دو بچے بھى ہيں، اور بعض اوقات ہمارى ڈيوٹى اكٹھى ہوتى ہے اور اچھے دوست بھى ہيں اور ہم اس دوسرے كے بہت قريب بھى ہيں، ليكن ابھى تك كوئى حرام كام نہيں كيا، ميرے كچھ سوالات ہيں: 1 ـ كيا ميرى پہلى عرفى شادى ابھى تك موجود ہے، ہم نے دو گواہوں اور ايك وكيل كى موجودگى ميں شادى كى تھى، ليكن مجھے يہ علم نہ تھا كہ يہ حقيقى شادى ہے اور پھر ميں شادى شدہ بھى تھى ؟ 2 ـ اب ميں اپنے خاوند سے طلاق لينا چاہتى ہوں، كيونكہ ميں اس سے محبت نہيں كرتى اور نہ ہى خاوند اور اپنى بچيوں كے ساتھ مسلسل جھوٹ بول سكتى ہوں ؟ 3 ـ اگر مجھے طلاق ہو جاتى ہے تو كيا ميرے ليے اس اچھے مسلمان دوست سے اسلامى شادى كر كے دوسرى بيوى بننا جائز ہے، اور عدت كى مدت كتنى ہو گى ؟ 4 ـ اس نے مجھے بتايا ہے كہ اس كى پہلى بيوى كہتى ہے اگر اس نے دوسرى شادى كى تو وہ اس سے طلاق لے كر بچوں سميت چلى جائيگى اس ليے ميں آپ سے شادى نہيں كر سكتا، تو كيا اس كى پہلى بيوى كو ايسا كرنے كا حق حاصل ہے ؟ ميں نے چاہتى كہ ميرى وجہ سے اسے تكليف اور اذيت سے دوچار ہونا پڑے كہ وہ اپنے خاندان سے دور رہے، اور خاندان كو ملنے نہ جائے، ميں نہ تو اس سے مال حاصل كرنا چاہتى ہوں اور نہ ہى ميں اس كے خاندان كا خسارہ اور نقصان كرنا چاہتى ہوں اور نہ ہى اس كى پہلى بيوى كے ساتھ كوئى برائى كرنا چاہتى ہوں، اور نہ ہى ميں اس پر غيرت ركھتى ہوں بلكہ ميں تو اس كى دوسرى بيوى بن كر اس كے ملك ميں بھى رہنے كے ليے تيار ہوں اور بعض اوقات اپنے ملك آ جايا كرونگى تا كہ اپنى بيٹيوں كو مل ليا كروں. اگر آپ اس موضوع ميں ميرا تعاون كرينگے تو ميں آپ كى مشكور رہوں گى، اللہ تعالى آپ كى حسنات و نيكيوں ميں اضافہ فرمائے.

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرى والدہ ميرى بيوى كو بغير ناحق تنگ كرتى ہے حتى كہ بيوى كے خاندان والوں كو بھى برا كہتى ہے، اور بيوى اور اس كے خاندان والوں پر ناحق غلط قسم كے الزامات لگاتى رہتى ہے، اس كے نتيجہ ميرى بيوى اپنى ساس سے قطع تعلق كرنے لگى ہے. يہ علم ميں رہے كہ ميں والدہ كو ملتا رہتا اور ٹيلى فون پر بھى ان كى خيريت دريافت كرتا رہتا ہوں، ميرى والدہ كو ميرى بيوى كى جانب سے قطع تعلقى كى توقع نہ تھى ليكن جب بيوى نے ايسا كيا تو والدہ اس كا الزام مجھ پر لگانے لگى كہ ميں نے ہى بيوى كو ايسا كرنے كى اجازت دى ہے، والدہ كہتى ہے كہ جب تك ميرى بيوى كے اس سے تعلقات صحيح نہيں ہوتے تو وہ مجھ سے قيامت تك راضى نہيں ہوگى، ميں بيوى پر سختى نہيں كرنا چاہتا بلكہ اسے اختيار ديا ہے كہ وہ رابطہ ركھے يا نہ ركھے، اب تو والدہ مجھے ناحق بد دعائيں دينے لگى ہيں. ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ميرى بيوى كا اپنى ساس سے قطع تلقى كرنے ميں كوئى محروميت ہے يا پھر ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟ دوسرا سوال يہ ہے كہ: كيا والدہ كو حق ہے كہ وہ مجھ پر راضى ہونے كے ليے اپنے ساتھ ميرى بيوى كے تعلقات بحال كرنے اور ملنے كى شرط ركھے، حالانكہ ميں نماز ميں والدہ كے ليے دعا مانگتا رہتا ہوں، اور والدہ كى جانب سے صدقہ بھى كرتا ہوں ؟ تيسرا سوال يہ ہے كہ: اگر ميرى بيوى قطع تعلقى پر مصر رہے تو كيا والدہ كى ناراضگى كا گناہ مجھ پر ہوگا يا نہيں ؟ برائے مہربانى معلومات فراہم كر كے عند اللہ ماجور ہوں.

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميرے ليے ايك شخص كا رشتہ آيا ہے جس كے بارہ ميں ميرا خيال ہے كہ وہ نيك و صالح اور سلف صالحين كے منہج پر ہے، باقى معاملہ اللہ ہى جانتا ہے، اور وہ عمر ميں مجھ سے چھوٹا ہے، اس نے شرط ركھى ہے كہ اس كى شادى ميں اس كے گھر والے نہيں آئينگے؛ كيونكہ وہ گھر والوں كو اپنى شادى كے بارہ ميں نہيں بتانا چاہتا، اس ليے كہ اسے اس شادى سے انكار كا خدشہ ہے، كيونكہ ميں عمر ميں اس سے بڑى ہوں. اس ليے اس نے واضح كر ديا ہے، تو كيا يہ شخص صحيح كر رہا ہے، اور مجھے كيا كرنا چاہيے ؟ برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں.

  • اردو

    مُفتی : محمد صالح

    ميں شيطانى چالوں سے كس طرح چھٹكارا حاصل كر سكتا ہوں، ميرى بيوى زبان دراز اور برى زبان والى ہے، ميں نے كئى بار اسے طلاق دينے اور اسے چھوڑنے كا سوچ چكا ہوں پھر ميں اپنى تقدير كے بارہ ميں سوچ كر كہتا ہوں: اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرے ليے يہ حالت كيوں اختيار كي ہے ؟! اور اس كے نتيجہ ميں نماز چھوڑ ديتا ہوں، پھر اللہ سے استغفار كر كے توبہ كرتا ہوں، برائے مہربانى آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں، اور كيا تقدير كے مسئلہ كى شرح كر سكتے ہيں ؟