محمد صالح - فتاوے
عناصر کی تعداد: 357
-
تمام زبانیں
- تمام زبانیں
- آئغور زبان
- آرمینی
- آسامی زبان
- اردو
- ازبکی زبان
- اسپينی زبان
- اطالوی زبان
- الباني زبان
- انڈونيشی
- انگريزی زبان
- بنگالی زبان
- بوسنيائی زبان
- ترکی زبان
- تلگو زبان
- تمل زبان
- تھا ئی لنڈی زبان
- جاپانی
- جرمنی
- جورجیائی
- روسی زبان
- رومانی زبان
- سنھالی زبان
- صربی
- طاجکستانی زبان
- فارسی زبان
- فرانسيسی زبان
- مليالم زبان
- نيپالی زبان
- ويتنامی زبان
- يوروبا زبان
- يونانی
- چینی
- کردی
- کناڈا
- ھندی
- ہولنڈی
-
اردو
مُفتی : محمد صالح
ميرے خاوند نے ميرے ملك سے باہر سفر پر جانے سے تين طلاق كو معلق كر ديا ہے كہ اگر سفر پر گئى تو تجھے طلاق اور اس كى نيت طلاق كى ہے، وہ خود ہر سال اپنے دوست و احباب كے ساتھ سياحتى سفر پر جاتا اور كہتا ہے كہ وہاں بہت فتنہ و فساد ہے، اور ميں ايك غيرت مند آدمى ہوں، اور ميں مرد ہوں اس ليے وہاں جانے ميں كوئى مانع نہيں، حالانكہ وہ طبعى جگہوں پر جاتا ہے ليكن مجھے اور بچوں كو سير و تفريح پر لے جانے سے انكار كرتا ہے، حتى كہ يہاں سعوديہ ميں بھى نہيں لے كر جاتا. بلكہ جواب يہ ديتا ہے ميں تمہيں اختلاط والى جگہوں پر نہيں لے جانا چاہتا، ميں تو اس سے بحث كركے تھك گئى ہوں وہ كہتا ہے ميں ہر برس ايك ماہ كے ليے سير و تفريح پر جاتا ہوں كيا يہ جائز ہے كہ مجھ پر اللہ كى جانب سے حلال كردہ سياحت كو حرام كر ديا جائے، وہ جب چاہتا ہے چلا جاتا ہے. حالانكہ وہ نماز كا بھى پابند ہے، اور ہمارے پاس ڈش بھى نہيں اور نہ ہى وہ گانے سنتا ہے، كيا اسے حق حاصل ہے كہ وہ مجھے ميرى مرضى كے بغير ميرے ميكے چھوڑ كر چلا جائے ؟ مجھے بتائيں كہ ميں اس كے ساتھ كيا كروں ؟ اللہ تعالى سے دعا كريں كہ وہ مجھ اور اس سے غفلت كو دور كرے.
-
اردو
مُفتی : محمد صالح
ميں مطلقہ ہوں اور طلاق اس ليے طلب كى كہ خاوند نے مجھے چھوڑ ركھا تھا، اور اس ليے بھى كہ اسنے رشوت دے كر بے اے كى جعلى ڈگرى حاصل كى، اور يہ علم ميں رہے كہ ميں نے اسے نصيحت بھى كى كہ اس گواہى سے آنے والا مال حرام ہے اور پھر وہ بھى اس سے غافل نہ تھا اسے اس كا علم بھى تھا اس نے كئى بار رشوت دى اور جو چاہتا تھا وہ حاصل بھى كيا. اس كے علاوہ اس نے اپنے اٹھارہ سالہ بھائى كو بھى ميرے ساتھ فليٹ ميں ركھا اور اسے چابى دے ركھى تھى كہ جب چاہے آئے اور جائے، اس سلسلہ ميں ميرا خاوند كے ساتھ اختلاف بھى ہوا، اور اسى وقت ميرے خاوند نے ميرے گھر والوں كى تذليل بھى كى جنہوں نے اس كے ساتھ كوئى برا سلوك نہيں كيا تھا. يہ علم ميں رہے كہ خاوند كى ملازمت كى وجہ سے ہم كسى دوسرے ملك ميں اكٹھے رہتے تھے اس كے بعد خاوند نے مجھ سے ٹيلى فون بھى لے ليا اور بغير محرم مجھے اپنے پانچ سالہ بچے كے ساتھ اپنے ملك بھى روانہ كر ديا صرف ميرے ساتھ خادمہ تھى، تو يہاں سے اس نے ميرے ساتھ عليحدگى اور بائيكاٹ شروع كيا، اس كے بعد اور بھى بہت سارى مشكلات پيدا ہوئيں جن ميں غير اخلاقى حركات بھى تھيں اور ميں نے طلاق كا مطالبہ كر ديا، تو كيا ميرے طلاق طلب كرنے ميں مجھے كوئى گناہ تو نہيں، اس كا ميرے ساتھ اكثر طور پر معاملہ ايك ملازمہ جيسا تھا اور نہ ہى احترام كرتا تھا.
-
اردو
مُفتی : محمد صالح
جناب مولانا صاحب ميرا سوال بيويوں كے ساتھ تعامل كے متعلق ہے كيونكہ ميري دو بيوياں ہيں پہلى بيوى سے ميرے تين بچے ہيں اور وہ چوتھے بچے كى ماں بننے والى ہے، اور دوسرى بيوى سے ميں تقريبا سات ماہ قبل شادى كى ہے، جناب مولانا صاحب ميرا سوال يہ ہے كہ: ايك دن مجھے دوسرى بيوى كہنے لگى: مجھے آپ كى پہلى بيوى نے بطور نصيحت يہ بات كہى كہ: عنقريب تم اپنى شادى پر نادم ہوگى، يعنى ميں نے اتنى مدت سے اپنے بچوں كى وجہ سے صبر و شكر كر رہى ہوں. دوسرى بيوى كہنے لگے: اس نے مجھے آپ كے متعلق بہت باتيں كيں ليكن ميں نے اسے خاموش كرا ديا، اور اسے كہا كيا تمہيں علم ہے كہ يہ غيبت اور چغلى شمار ہوتى ہے؟ اور اسے نصيحت كى اور اللہ كا خوف دلايا، اس طرح كى حالت اور موقف ميں كيا كرنا چاہيے ؟ يہ علم ميں رہے كہ ميں نے دونوں ميں سے كسى ايك كے ساتھ بھى كوئى كمى و كوتاہى نہ برتى، اور انہيں آپس ميں بہنيں بن كر رہنا ديكھنا پسند كرتا ہوں، اور ميں ان دونوں كے ساتھ اسى بنياد پر سلوك كرتا ہوں، اور استطاعت كے مطابق كوشش كرتا ہوں كہ ايك كى جانب سے نكلى بات كو دوسرے سے چھپاؤں اور اسے پردہ ميں ركھوں، اور استطاعت كے مطابق كوشش كرتا ہوں كہ ان دونوں كے ذاتى اخراجات ميں بھى عدل سے كام لوں اور رات بسر كرنے ميں بھى، اور باقى حياۃ زوجيت ميں بھى برابرى كى كوشش كرتا ہوں. اور ميں پسند كرتا ہوں كہ ہم ايك ہى خاندان كى طرح اكٹھے جائيں اور گھوميں، برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں ؟
-
اردو
مُفتی : محمد صالح
اگر كوئى شخص يہ بات كہے كہ: " مسلمانوں كے فقر اور كمزورى اور اس دور ميں ان كے پيچھے رہنے كا سبب كثرت نسل ہے، اس ليے مسلمان ترقى نہيں كر سكے، ايسا اعتقاد ركھنے والے شخص كا شريعت ميں كيا حكم ہے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميرى عمر چاليس برس ہو چكى ہے اور ميں دس برس سے شادى شدہ ہوں اور بيوى كے اعضاء تناسليہ ميں پرابلم كى وجہ سے اب تك كوئى اولاد پيدا نہيں ہوئى، ہم نے بہت سارے ڈاكٹر حضرات سے رابطہ كيا اور بہت علاج كيا ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، اب ميرے گھر والے مجھ پر دوسرى شادى كرنے كا دباؤ ڈال رہے ہيں اور ميں بھى اس سوچ پر مطمئن ہوں، ليكن اپنى بيوى كے دل كو زخمى نہيں كرنا چاہتا، كيونكہ اس نے دوسرى شادى كى سوچ رد كر دى ہے اور شادى كى صورت ميں خود كشى كرنے كى دھمكى دى ہے، برائے مہربانى مجھے راہنمائى كريں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
برائے مہربانى اس عورت كے شبھات كا رد كريں ايك ويب سائٹ مجلس ميں يہ عورت اعتراض كرتے ہوئے كہتى ہے: خاوند كى فضيلت اور اس كے حقوق كے متعلق بہت سارى احاديث پائى جاتى ہيں جن ميں كچھ مفہوم بيان كرتى ہوں: ـ خاوند بيوى كو مباشرت كے ليے بلائے اور بيوى انكار كر دے تو فرشتے عورت پر لعنت كرتے ہيں. ـ اگر كسى شخص كو كسى دوسرے كے سامنے سجدہ كرنے كا حكم ديا جاتا تو عورت كو كہا جاتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، آپ ديكھيں يہ خاوند كوئى بھى ہو اور چاہے اپنے مزاج كے مطابق بيوى سے سلوك كرے يا حسن معاشرت كرتا ہو. ـ جو عورت پانچ نمازيں ادا كرتى اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے اور خاوند كى اطاعت كرے تو وہ جنت ميں داخل ہوگى. اگر عورت فوت ہو اور اس كا خاوند اس سے راضى تھا تو عورت جنت ميں جائيگى. مرد چاہے دو يا تين يا چار شادياں كر سكتا ہے؛ كيونكہ يہ زنا سے افضل ہے، ليكن اس عورت كے بارہ ميں كيا ہے جسے اس كا خاوند چھوڑ دے ؟! وہ عورت اس سے خلع طلب كرنے كے ليے خاوند كو مال ادا كرے، اور بعد ميں تكليف و مصيبت بھى اٹھائے! آدمى بيوى كو گھر سے باہر نكلنے كى اجازت نہيں ديتا اور سفر پر چلا گيا عورت كا والد بيمار ہوا تو اس نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت مانگى تو آپ نے فرمايا خاوند كى اطاعت كرو، اس كا والد فوت ہوگيا ليكن وہ اسے ديكھ بھى نہ سكى! ـ طلاق كى صورت ميں عورت بچے كى تربيت كرتى اور رات بيدار رہتى اور مشكل سے مشكل مراحل سے گزرتى ، اور پھر جب بچہ خود كھانے پينے كے قابل ہو تو والد آ كر لے جائے! اگر ان احاديث كو بيان كرنے ميں مجھے كوئى غلطى لگى ہو تو آپ اس كى تصحيح كر ديں، مجھے نصا احاديث ياد نہيں ہيں، ليكن عورت اور اس كے حقوق كے بارہ ميں كيا ہے اسے كہا جاتا ہے حقوق حاصل كرنے كے ليے عدالت ميں جانا پڑ تا ہے، ہم ايسے مردانہ معاشرہ ميں رہتے ہيں جہاں مرد كو ہى تقويت دى جاتى ہے چاہے وہ ظلم بھى كرے يا غلط بھى ہو ليكن عورت كو صبر و تحمل كرنے كى تلقين كے ساتھ اپنے كچھ حقوق سے بھى دستبردار ہو جائے تا كہ خاوند راضى ہو اور گھر كا شيرازہ نہ بكھرے، كيونكہ طلاق كے بعد تو اسے اور بھى زيادہ مشكلات پيدا ہونگى، اس كے ليے دوسرى شادى كرنا اور بچوں كو پالنا مشكل ہوتا ہے. مجھے بھى اسى طرح كى مشكلات كا سامنا ہے، شادى كے صرف دو ماہ بعد مجھے خاوند نے صرف اس بنا پر چھوڑ ديا كہ ميں خاوند كى ايك قريبى رشتہ دار كے ہاں نہيں گئى تھى، مجھے اس نے تين ماہ تك ميكے ميں چھوڑے ركھا اور كوئى خبر بھى نہ لى حالانكہ ميں حاملہ تھى، اب وہ كسى دوسرے ملك ميں چٹھياں گزار رہا ہے اور مجھے معلق چھوڑ ركھا ہے مجھے حمل كى مشكلات كے ساتھ ذہنى پريشانى بھى اٹھانا پڑ رہى ہے، كيا ميں طلاق طلب كر لوں يا نہ ، اور بچے كا كيا ہو گا ؟ كيا وہ اسے لے جائيگا يا ميں اس كے ليے چھوڑ دوں ؟ كيا ميں اس سے ايسے گناہ كى معافى مانگوں جس كا ميں نے ارتكاب بھى نہيں كيا ؟ وہ ميرے ساتھ حسن سلوك نہيں كرتا پہلى رات سے ہى مجھ پر سختى كر رہا ہے اور مجھے سبب كا بھى علم نہيں، اس كى والدہ كا اس پر بہت اثر ہے، مجھے بتائيں ميں كيا كروں كيا دين ميں كوئى ايسى جانب ہے جہاں مرد و عورت كے مابين مساوات قائم كى گئى ہيں جس كا مجھے علم نہيں ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
غم و پريشانى حاصل ہونے كى صورت ميں طلاق طلب كرنے كا كيا حكم ہے ؟ كيا اپنے ملك اور گھر والوں سے دورى ـ جس نے مجھے نفسياتى مريض بنا كر غم و پريشان كر ديا ہے ـ ايسا عذر ہے جس كى بنا پر طلاق طلب كرنا مباح ہو جاتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ مجھے شادى سے قبل يہ علم تھا كہ ميں شادى كے بعد اپنے ملك كے علاوہ دوسرے ملك رہوں گى.
- اردو مُفتی : محمد صالح
ہم ديكھتے ہيں كہ نماز تراويح كے ليے آنے والى كئى ايك عورتيں بہت تيز خوشبو استعمال كرتى ہيں، جس كى بنا پر پيچھے آنے والے مرد بھى يہ خوشبو سونگھتے ہيں، ہم نے كچھ عورتوں ك واس كے متعلق نصيحت بھى كى تو وہ كہنے لگيں مسجد آتے وقت خوشبو استعمال كرنا مسجد كے ادب و احترام ميں شامل ہے، آپ سے گزارش ہے كہ اس كے متعلق كيا حكم ہے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں ستائيس برس كى مسلمان لڑكى ہوں، مجھے دينى التزام كا كچھ علم نہ تھا، يا اس كى طرف راہ كا بھى علم نہ تھا، بہر حال ميں نے ايك عيسائى نوجوان سے محبت كرنا شروع كر دى اور مجھے اس نے بتايا كہ وہ مجھ سے شادى كرنے كے ليے مسلمان ہو رہا ہے، ليكن وہ اپنے اسلام كو ظاہر نہيں كرنا چاہتا كيونكہ چرچ والے اس كو قتل كر دينگے. ہم نے آپس ميں ايك ورقہ لكھا جسے " عرفى زنا يا نكاح " كا نام ديا جاتا ہے، ليكن مجھے اس وقت نكاح كے معنى كا علم نہ تھا، اور اس لڑكے نے ميرے گھر والوں كے علم كے بغير مجھ سے دخول اور جماع بھى كيا، ميں بہت خوش تھى كہ اس نے ميرى وجہ سے اسلام قبول كر ليا ہے، مجھے حمل بھى ہو گيا اور ميں نے اس كے اسلام كے اظہار كا انتظار كيا ليكن وہ بہت ہى گندا اور برا شخص نكلا اس نے مجھے بتايا كہ وہ مسلمان نہيں ہوا اور نہ ہى اس نے ميرے ساتھ شادى كو ظاہر كيا، اور امريكہ چلا گيا. اس كے بعد مجھے احساس ہوا كہ ميرا انجام قريب ہے، اور جو كچھ ميں نے كيا ہے اللہ اس كا مجھ سے انتقام لينے والا ہے ليكن اللہ تعالى نے ميرا پردہ ركھا جو كہ اللہ كى جانب سے عظيم احسان تھا، ميں نے پورى كوشش كى كہ كسى طريقہ سے اس بچہ سے چھٹكارا حاصل كر لوں، ليكن ايسا نہ ہو سكتا، ميں ولادت سے قبل گھر سے بھاگ گئى اور بچہ پيدا ہوا تو ميں نے اسے كچھ غريب و فقير افراد كے حوالے كر ديا اور انہيں اس كے اخراجات كے ليے كچھ رقم بھى دى. اللہ كى قسم پھر اللہ كى قسم ميں نے ہر قسم كے گناہ سے اللہ كے ہاں توبہ كر لى، اور اب پردہ بھى كرنے لگى ہوں اور روزے ركھتى ہوں اور نماز پنجگانہ كى پابندى كرنے لگى ہوں، اس كے چار برس بعد ميرے ليے ايك دين پر عمل كرنے والے نوجوان كا رشتہ آيا تو ميں نے بالكل صراحت كے ساتھ اس كو سب كچھ بيان كر ديا، ليكن ميں اس سے حيران ہوئى كہ اس كے باوجود اس نے مجھے نہيں چھوڑا اور ميرا ساتھ ديا اور ميرا پردہ ركھا اور ميں نے اس سے شادى كر لى. اب وہ ميرے ساتھ بہت اچھا معاملہ كر رہا ہے؛ كيونكہ وہ دين پر عمل كرتا ہے، اب ہمارى زندگى ايمان سے بھرپور ہے اور تقوى و دين پايا جاتا ہے، اب مجھے معلوم نہيں كہ اس بچے كا حكم كيا ہے كيا وہ بالفعل ميرا بچہ ہے يا كہ نہيں، اور يہ كيسے اور ميرى اس حالت كا شرعى حكم كيا ہے، اور كيا ميرے اس خاوند سے بچوں كا بھائى ہے يا نہيں ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں پردہ تو كرتى ہوں، ليكن نقاب نہيں پہنتى، ميرا خاوند كہتا ہے كہ اگر ميں نے اپنے چہرے كا پردہ نہ كيا تو وہ مجھے طلاق دے ديگا، ا سكا كہنا ہے كہ ميں جو بھى مطالبہ كروں مجھے اس كى اطاعت كرنا ہوگى، ميں خاوند كى نافرمانى نہيں كرنا چاہتى، ليكن نقاب پہننے سے ليے تنگى كا باعث بنے گا، اور ميرے ليے بہت پريشانى كا سبب ہو گا، ميرا خيال ہے كہ مجھے يہ احساس صرف ميرى ايمانى كمزورى كى بنا پر ہے، ليكن ميں يہ محسوس كرتى ہوں كہ ميرا خاوند مجھے وہ كام كر كے غصہ دلاتا ہے جو ميں كرنا نہيں چاہتى، آپ سے گزارش ہے كہ اس موضوع ميں مجھے كوئى نصيحت كريں.
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں آپ كے سامنے اپنا قصہ اور پر مشكل پيش كرنا چاہتا ہوں اميد ہے آپ اس كو مدنظر ركھتے ہوئے مجھے جواب ديں گے: ايك برس قبل دوران تعليم ميرا ايك بااخلاق لڑكى سے تعارف ہوا اور تعليم مكمل كرنے كے بعد ہم نے شادى كرنے كا وعدہ بھى كيا، ليكن ايك دن مجھے علم ہوا كہ اس كى ايك ايسے شخص كے ساتھ منگنى ہو گئى ہے جسے وہ جانتى تك نہيں، اور اس كے چچا اس شادى پر موافق ہيں، بلكہ اس نے اس آدمى كے ساتھ اس كى شادى كرنے كا وعدہ بھى كر ليا ہے، حالانكہ لڑكى كا والد اور بھائى موجود ہيں. باپ خاموش رہا اور اس نے كوئى بات نہيں كى، حالانكہ وہ اور اس كى بيٹى دونوں ہى اس شادى پر موافق نہيں، ان كے گھر ميں چچا كى بات چلتى ہے كيونكہ وہى خاندان ميں بڑى عمر كا ہے، طويل جھگڑے كے بعد چچا نے جبرا اسے نكاح پر مجبور كر ديا حالانكہ وہ كنوارى ہے. اور ايك ماہ گزرنے كے بعد علم ہوا كہ اس كا خاوند شراب نوشى كرتا ہے، اور اكثر گھر آتا ہے تو نشہ كى حالت ميں اور بيوى كو زدكوب كرتا اور گالياں نكالتا ہے، اور مكمل طور پر اسلامى احكام پر عمل نہيں كرتا. حالانكہ ميں الحمد للہ دين پر عمل كرنے والا ہوں، حتى كہ ميں نے اس كو كہا تھا اگر ميں نے تجھ سے شادى كى تو تم پردہ كرو گى، اور ميں نے عورت كے سارے فرائض بھى اسے بتائے تو وہ اس پر راضى تھى، اس لڑكى كا بڑا بھائى سفر پر گيا ہوا تھا جب وہ سفر سے واپس آيا تو اسے علم ہوا كہ اس كى بہن كى جبرا شادى كر دى گئى ہے، اور اس كا بہنوئى شراب نوشى كرتا اور بہن كو زدكوب كرتا ہے، تو وہ اپنى بہن كو گھر لے آيا اسے طلاق تو نہيں ہوئى ـ ليكن وہ والدين كے گھر ميں ہے ـ. پہلا سوال يہ ہے كہ: كيا اس لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟ اور كيا باپ اور بھائى كے ہوتے ہوئے چچا كو بھتيجى كى شادى كرنے كا حق حاصل تھا ؟ دوسرا سوال يہ ہے كہ: اگر اس سے طلاق طلب كى جائے تو وہ طلاق نہيں دےگا، كيونكہ وہ جانتا ہے كہ ميں اس سے شادى كرنا چاہتا ہوں، اب جبكہ بھائى اسے گھر لے آيا ہے اور خاوند طلاق دينے سے انكار كر دے تو كيا قاضى يا امام كے ليے اسے طلاق دينا جائز ہے ؟ اور كيا اسلام ميں دين كى برابرى نہيں ہے، كيا ميں اس لڑكى كا زيادہ حقدار نہيں جبكہ اب ميں اسلامى يونيورسٹى كا طالب علم ہوں ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
كيا عورت كے ليے شرابى اور نشئى خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز ہے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
كيا عورت كے جائز ہے كہ وہ اس سے شادى كرنے والے شخص سگرٹ نوشى ترك كرنے كى شرط ركھے، اور اگر وہ اس شرط پر عمل نہ كرے تو عورت كو كيا كرنا چاہيے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں نوجوان ہوں اور تين برس قبل ميں نے اپنے سے ايك برس چھوٹى بيوى سے شادى كى، الحمد للہ ميرى اس سے دو برس كى بيٹى بھى ہے، مشكل يہ ہے كہ ہمارے درميان ابھى تك سمجھوتہ نہيں ہے، ہمارا ہميشہ آپس ميں تصادم ہى رہتا ہے كيونكہ وہ بہت غصہ والى ہے، اور اكثر اسے كوئى چيز پسند نہيں آتى اور پھر وہ بہت زيادہ شكوى شكايت كرنے والى بھى ہے، اور ميرے گھر والوں كے ساتھ سمجھوتہ نہيں كرتى. اس پر مستزاد يہ كہ مجھے اس كے ماضى ميں شك ہے وہ شادى سے قبل يونيورسٹى ميں تعليم حاصل كرنے كے عرصہ ميں سگرٹ نوشى كرتى اور نائٹ كلب جانے والوں ميں شامل تھى، اس نے شادى سے قبل ميرے سامنے اس كا اعتراف بھى كيا تھا، اور يقين كے ساتھ كہنے لگى كہ ان امور سے تجاوز نہيں ہوا. ليكن ايك برس قبل اچانك مجھے اس كے ذاتى كاغذات ميں سے ايك ميڈيكل سرٹيفكيٹ ملا ( اس كى تاريخ شادى سے ايك برس قبل كى ہے ) جس ميں اسے كنوارہ ثابت كيا گيا ہے، ميں نے اسے اس كے بارہ ميں دريافت كيا اور اس سے اس سرٹيفكيٹ حاصل كرنے كى وجہ دريافت كى كہ اگر وہ اپنے كنوارہ ہونے ميں شك نہيں ركھتى تھى تو پھر وہ ڈاكٹر سے يہ رپورٹ لينے كيوں گئى ؟ اس نے جواب ديا: كہ اس كى كچھ سہيلوں نے يہ كہا كہ ايسا كرنا روٹين كى بات ہے جو لڑكى اس ليے كرتى ہے كہ كہيں رخصتى كى رات كچھ خاوند حضرات مشكل كھڑى كر ديتے ہيں اس سے بچنے كے ليے ايسا كيا جاتا ہے، ليكن ميں مطمئن نہ ہوا، حالانكہ مجھے اس كے كنوارہ ہونے كا يقين تھا ليكن اس كے باوجود ميں شك ميں پڑا رہا. آپس ميں مشكلات كى كثرت اور سمجھوتے ميں صعوبت ہونے كے ساتھ ساتھ شك كى بنا پر ميں حقيقى طور پر اسے طلاق دينے كے بارہ ميں سوچنے لگا تا كہ فتنہ و خرابى سے اجتناب كر سكوں اور اپنے اور اس پر رحم كروں. ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ہر حال ميں طلاق حرام ہے يا حلال، اور اگر اس حالت ميں طلاق ديتا ہوں تو كيا گنہگار شمار كيا جاؤنگا ؟ برائے مہربانى شافى جواب سے نوازيں، اور آپ كے وسعت صدر سے سوال قبول كرنے پر آپ كا شكريہ.
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں نے ايك لڑكى سے اس ليے شادى كى كہ وہ كنوارى ہے اور جب رخصتى ہوئى تو ميں نے اسےكنوارا نہ پايا، چنانچہ اسے طلاق دے دى، اور جو مہر ادا كيا تھا وہ واپس لے ليا، يہ علم ميں رہے اس نے اس رات اقرار كيا تھا كہ اس كے والدين كو اس كا علم تھا، اور وہ اس كو مجھ سے چھپانا چاہتے تھے ہو سكتا ہے وہ اس پر متنبہ نہ ہو. اور اس نے يہ بھى اقرار كيا كہ اس كے ساتھ يہ قبيح فعل كرنے والا اس كا خالو تھا، اور وہى شخص ہمارى شادى كرانے ميں واسطہ تھا، كيا اس سلسلہ ميں مجھ كچھ لازم آتا ہے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں آپ كے سامنے اپنى مشكل ركھنا چاہتى ہوں مجھے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى مشكل كا كوئى حل نكالےگا: ميں بھى ايك لڑكى ہوں جس طرح دوسرى لڑكياں اس عمر ميں محبت كا شكار ہوتى ہيں ميں بھى شريف قسم كى محبت كا شكار رہى ہوں، اس طرح نوجوانوں كے ساتھ بات چيت شروع كى ، بہر حال جس نوجوان كے ساتھ وہ اس وقت بات چيت كرتى اور تعلق ركھتى ہے وہ لڑكا اس سے عشق كے درجہ كى محبت ركھتا ہے، حتى كہ اس نے لڑكى كے گھر والوں سے اس كا رشتہ طلب كيا ليكن گھر والوں نے نشئى ہونے كى بنا پر اس نوجوان كا رشتہ قبول نہ كيا. ليكن نوجوان كہتا ہے كہ شادى ہوتے ہى وہ نشہ چھوڑ دے گا، شادى كا انكار ہونے كے بعد اس نوجوان نے كئى ايك بار خود كشى كرنے كى كوشش كى، حتى كہ اس نوجوان كى والدہ نے لڑكى سے رابطہ كر كے بتايا كہ وہ لڑكى اس كے بيٹے كے قتل كا سبب بن رہى ہے. ليكن اب وہ لڑكى اس لڑكے كو پسند نہيں كرتى.. كيونكہ وہ اسے پاگل اور مجنون سمجھتى ہے، ايك اور نوجوان كا رشتہ آيا ہے اور لڑكى نے يہ رشتہ قبول كر ليا، ليكن جب پہلے نوجوان كو علم ہوا تو وہ آ كر كہنے لگا: اب وہ اپنے آپ كو نہيں بلكہ تجھے يعنى لڑكى كو قتل كريگا، اور وہ كہتى ہے كہ وہ نوجوان كچھ بھى كر سكتا ہے تا كہ كسى اور سے شادى نہ كرے. ميرا سوال يہ ہے كہ: اب اس لڑكى كو كيا كرنا چاہيے، كيا وہ كسى دوسرے نوجوان كا رشتہ قبول كر لے يا كيا كرے، برائے مہربانى آپ سوال كا جواب دے كر عند اللہ ماجور ہوں.
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميں مصرى ہوں اور ايك مصرى عورت سے شادى كى جس كے پاس كينڈا كى شہريت ہے، پھر ميں اس كے ساتھ كينڈا گيا ـ يہ علم ميں رہے كہ ميرے پاس امريكہ كى شہريت ہے ـ جب ميں كينڈا گيا تو مجھ پر انكشاف ہوا كہ بيوى كے خاندان ميں بہت سارى غير اسلامى روايات ہيں، حالانكہ ميں نے شادى سے قبل اس سے اس كے متعلق دريافت بھى كيا تھا مثلا: نماز وغيرہ. ہمارے مابين اتفاق ہوا تھا كہ ميرا كينڈا ميں رہنے كى عدم رغبت يا وہاں نہ رہ سكنے كى صورت ميں واپس خليج چلا جاؤنگا، اور بيوى نے اس پر موافقت كى تھى، جب ميں وہاں گيا تو اس كے خاندان ميں حالات غير مطمئن ديكھے اور وہاں زندگى بسر كرنے ميں اپنے ليے خطرہ محسوس كيا، اور اسلامى امور ميں اس كے خاندان كى دخل اندازى ديكھى اور ديكھا كہ وہ ميرے اسلامى مظہر پر بھى اثرانداز ہو كر مجھے تبديل كرنے كى كوشش كرنے لگے كہ ايك ماڈرن مسلمان بن جاؤں جو پردہ وغيرہ نہ كيا جائے اور شراب كى محفل ميں بيٹھا جائے. ميرى بيوى نے مجھے قسطوں (mortgage) پر گھر خريدنے پر راضى كر ليا، كچھ عرصہ بعد مجھے علم ہوا كہ يہ حرام ہے، اور بعض علماء نے مجبور شخص كے ليے اس كى اجازت دى ہے، لہذا ميں نے اسے فروخت كرنے كا عزم كر ليا، ليكن اس ليے نہيں كہ يہ حرام ہے بلكہ اس ليے كہ وہ راضى نہيں ہوئے، اور اسى اثناء ميں ميرى بيوى حاملہ ہو گئى تو ميں نے صبر كيا حتى كہ اس كے ہاں بچہ پيدا ہو گيا، اس كے بعد ميں نے اسے كہا چلو يہاں سے واپس خليج چلتے ہيں تو وہ بادل نخواستہ تيار ہو گئى، ليكن اس كے گھر والوں نے انكار كر ديا اور وہ اپنى ماں كى موافقت كے بغير خود كچھ بھى نہيں كر سكتى؛ كيونكہ اس كى ماں ہى گھر ميں سياہ و سفيد كى مالك ہے اور باپ كى نہيں چلتى، كئى ايك مشكلات كے بعد ميں نے كہا كہ چلو ميں اكيلا ہى واپس چلا جاتا ہوں ـ اور ان كى تجويز كى بنا پر ـ ميں نے كہا وقت فوقتا بيوى كو ملنے آ جايا كرونگا، اور جب ميں نے گھر فروخت كرنے كا كہا تو وہ پاگل ہو گئے اور گھر فروخت كرنے سے انكار كر ديا اور كہا كہ بيوى كو طلاق دے دو اور گھر فروخت كر دو، اور ميرى بيوى كو بھى ميرے خلاف كر ديا اور اسے ميرے گھر سے نكال كر لے گئے. اسى دن اس كے بھائى نے ميرے ساتھ بات كى اور مجھ سے طلاق كا مطالبہ كيا تا كہ مجھے سفر سے روك دے، اور وكيل نے مجھے طلاق دينے كے ليے طلب كيا پھر ميرے مالى حالات كچھ سخت ہو گئے حتى كہ ميں نے اپنا گھر بھى چھوڑ ديا اور اپنى بيٹى كو بھى پرورش ميں نہ لينے پر مجبور كر ديا گيا... الخ. ميں اب ايك اسلامى عربى ملك جانا چاہتا ہوں اور اپنى عفت و عصمت كو بچانے كے ليے شادى كرونگا ليكن اپنى بيٹى كو كينڈا ميں چھوڑوں جس كى عمر ابھى صرف ڈيڑھ برس ہے اور ميں مقروض بھى ہوں اور اپنى بچى كو اپنى پرورش ميں لينے پر قادر ہوں ليكن اس كے ليے مجھے وہاں كينڈا ميں ہى رہنا پڑيگا ليكن ميں اپنى اولاد كى پرورش اسلامى معاشرے ميں كرنا چاہتا ہوں كسى غير اسلامى معاشرے ميں نہيں برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں، اور كيا اگر ميں كينڈا ترك كر كے آ جاؤں اور كبھى اپنى بيٹى كو ملنے كے ليے جاؤں تو اللہ ميرى پكڑ كريگا اور كيا ميں اس حديث كے تحت تو نہيں آتا " آدمى كے ليے يہى كافى ہے كہ وہ اپنى پرورش اور عيالت دارى ميں رہنے والے كو ضائع كر دے " ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
مجھے يہ مشكل درپيش ہے كہ ميرى بہن كى سہيلى كے خاوند سے شادى ہونے والى ہے، ميں اس كے گھر جاتى اور ہم سب آپس ميں بيٹھ كر باتيں كيا كرتے، جب ميرى بہن اسے نصيحت كرتى كہ يہ حرام ہے يعنى مرد و عورت كا اختلاط حرام ہے تو وہ اس سے مذاق كرتى اور كہتى كے تم لوگ تو پيچھے زمانے ميں جا رہے ہو، معاملہ يہاں تك پہنچ گيا كہ اس كے خاوند نے ميرا رشتہ طلب كر ليا. اس كا كہنا ہے كہ ميں اسے پہلى نظر ميں ہى پسند آ گئى تھى، وہ اولاد چاہتا ہے كيونكہ اسكى بيوى اولاد پيدا نہيں كر سكتى، جب اس كى بيوى نے يہ بات سنى تو وہ مجھے كہتى ہے كہ ميں نے اس كے ساتھ خيانت كي ہے، كيا ميں اس كى بيوى بننا قبول كر لوں يا قبول نہ كروں ؟ ان ميں اختلافات پيدا ہو چكے ہيں اس ليے وہ اپنى بيوى كو طلاق دينا چاہتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ بنك ميں ملازم ہے اور اپنى ملازمت بھى تبديل كرنا چاہتا ہے كيونكہ اسے علم ہے كہ يہ ملازمت حرام ہے، اور وہ پكا نمازى بھى ہے ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ايسى بيوى كے حقوق كيا ہيں جس كے اپنے پہلے خاوند سے تعلقات ثابت ہو جائيں جس نے اسے طلاق دے دى تھى اور اس نے نئے خاوند سے طلاق لے كر پہلے خاوند كے پاس جانے كا اتفاق بھى كر ليا ہو ؟
- اردو مُفتی : محمد صالح
ميرى والدہ جس بات كے پيچھے پڑ جائے اسے چھوڑتى نہيں، اور اس كے مطالبات ختم ہونے كا نام نہيں ليتے، ميرے ساتھ ميرے خاوند كے متعلق لڑتى رہتى ہے حالانكہ ميرا خاوند مجھ اور ميرى اولاد كے ساتھ بہت ہى اچھا برتاؤ كرتا ہے، ميرى والدہ چاہتى ہے كہ ميرا خاوند اسے سير و تفريح ميں اپنے ساتھ لے كر جائے، اس كے اور بھى كئى مطالبات ہيں، اور بہت زيادہ خرچ كرتى ہے جسے ميرا خاوند پسند نہيں كرتا. ميرا خاوند ايك ڈاكٹر ہے اور اپنى ساس كو اتنا وقت نہيں دے سكتا، اور پھر وہ سمجھتا ہے كہ ميں اور ميرى والدہ اكٹھى نہيں رہ سكتيں، ميرى والد سال ميں كم از كم تين يا چار بار ہميں ملنے آتى ہے، اور چاہتى ہے اسے روزانہ سير و تفريح كے ليے لے جاؤں چاہے بچوں اور گھر كو وقت نہ بھى ديا جائے. والدہ تجارت بھى كرتى ہے ليكن اس كے باوجود كہتى ہے تم اپنے بہن بھائى كو اپنے پاس ركھو جن كى عمر سولہ اور اٹھارہ برس ہے، اور اس كے ليے خاوند كى اجازت كى بھى ضرورت نہيں، دو برس قبل والد صاحب فوت ہوئے تو انہوں نے ميرى يونيورسٹى ميں تعليم كے ليے قرض ليا تھا اور يہ قرض واپس كرنے سے انكار كر ديا جس كى بنا پر ميرى شہرت اتنى خراب ہوئى كہ ميں اپنے نام پر كوئى چيز بھى نہيں خريد سكتى. اس سے بھى بڑھ كر والد فوت ہونے سے كچھ عرصہ قبل ميرى والدہ نے والد كى سارى جائداد اور مال اپنے نام كروا ليا تا كہ ہم ميں تقيسم كرنا آسان رہے، ہم چار بہنيں اور ايك بھائى ہيں، ليكن والد كى وفات كے بعد كہنے لگى وہ سب كچھ توم ميرے نام ہے، ميں نے تمہارے والد كے قرض كى ادائيگى كے ليے بہت كچھ ادا كيا ہے، قرض كى ادائيگى سے ہى اس كى تجارت يہاں تك پہنچى ہے، اس ليے وہ مرنے تك سارا مال اور جائداد خود ہى ركھےگى. جب والدہ نے ظاہر كيا كہ وہ والد كے قرض كى ادائيگى كرنا چاہتى ہے تو ميں نے كسى كو بتائے بغير والدہ كو تقريبا ايك لاكھ ڈالر ديے، ليكن والدہ نے قرض ادا كرنے كى بجائے گرميوں ميں رہنے كے ليے ايك گھر خريد ليا، اور بالكل انكار كر ديا كہ اسے ميں نے كچھ ديا ہے، شادى سے چھ برس قبل يہ قرض ليا گيا تھا اور خاوند كو اس كے متعلق علم بھى نہيں ہے اب يہ قرض ميرے نام ہے اور روز بروز اس ميں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس كے علاوہ ميرى والدہ ميرے خاوند كے ساتھ برا سلوك كرتى اور اسے گالياں بھى نكالتى ہے اور مجھے اس كى نافرمانى كرنے كا كہتى رہتى ہے، كہ والدہ كا تجھ پر خاوند سے بھى زيادہ حق ہے، اور مجھے اپنے خاوند كو معذرت كرنے پر مجبور كرتى ہے كہ وہ اپنى ساس سے معذرت كرے حالانكہ اس نے كوئى غلطى بھى نہيں كى، ہم دو ملكوں مصر اور امريكہ ميں بٹے ہوئے ہيں، بلكہ كچھ ايام قبل والدہ نے دھمكى بھى دى كہ اگر تم ماں سے محبت كرتى اور اللہ كى نافرمان نہيں كرنا چاہتى تو اپنى اولاد كے ساتھ مجھے ملنے آؤ، ليكن ميرا خاوند اكيلا رہنے پر راضى نہيں، ماں كہتى ہے كہ خاوند كى بات نہ سنو بلكہ ماں كى بات مانو، ليكن اس كے باوجود مجھے خاوند يہى كہتا ہے كہ والدہ كے ساتھ حسب استطاعت بہتر سلوك كرتے ہوئے اچھے تعلقات ركھو. ميرا سوال يہ ہے كہ ان حالات ميں مجھ پر كيا ذمہ دارى عائد ہوتى ہے، كہ والدہ كے ساتھ كيسے تعلقات ركھوں، اور اسى طرح اس قرض كا ذمہ دار كون ہے، حالانكہ مجھے اس يونيورسٹى ميں پڑھائى كر مجبور كيا گيا اور ميرى عمر بھى اس وقت سولہ اور اٹھارہ برس كے درميان تھى، خاوند كو اس قرض كے متعلق كچھ علم نيں، اور پھر ماں كے پاس تو قرض كى ادائيگى سے بھى زياد مال ہے.